Zaheer Kashmiri, Poet, Journalist and Critic of Urdu Literature.
By Aslam Malik
Who Was Zaheer Kaashmiri?
آج ممتاز شاعر نقاد، صحافی ظہیر کاشمیری کی چھبیسویں برسی ہے
وہ 21 اگست 1919 کو امرتسر میں پیدا ہوئے اور 12 دسمبر 1994
کو لاہور میں وفات پائی۔
ظہیر کاشمیری کا اصل نام غلام دستگیر تھا۔ گھر میں ادبی ماحول تھا۔ ان کے تایا ظہیر الدین، داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔
ظہیر کاشمیری میٹرک میں تھے کہ ان کا کلام موقر ادبی جرائد میں شائع ہونے لگا. فرسٹ ایر میں تھے کہ امرتسر سے لاہور آکر مشاعرہ پڑھا. ابتدا میں افسانے بھی لکھے جو امرتسر کے ہفت روزہ آفتاب میں شائع ہوتے رہے
ظہیر کاشمیری نے ایم اے او کالج امرتسر سے تعلیم حاصل کی، ایم اے انگریزی سیاسی سرگرمیوں کے باعث مکمل نہ کرسکے۔انگریزی میں کچھ کہانیاں اور مضامین بھی لکھے. کالج میگزین ’’الہلال‘‘ کے ایڈیٹر رہے۔ ،ایک ادبی تنظیم ’’ انجمن حریم اردو ‘‘ قائم کی، خود اس کے صدر اور اسحٰق محمد سیکریٹری تھے ( جو بعد میں میجر اسحٰق محمد کہلائے)
کالج کے زمانے سے ہی بائیں بازو کی سیاست اور ٹریڈ یونین میں سرگرم ہوگئے. کئی بار گرفتار بھی ہوئے
قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرکے لاہور آگئے. یہاں صحافت اختیار کی. روزنامہ احسان میں مجنوں کے قلمی نام سے کالم لکھتے رہے. بعد میں روزنامہ مساوات کے ایڈیٹر بھی رہے
ظہیر کاشمیری کی کلیات ’’ عشق و انقلاب‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ اس سے پہلےشعری مجموعے عظمتِ آدم، تغزل ، چراغِ آخرِ شب، رقصِ جنوں، آدمی نامہ، جہان آگہی شائع ہوئے ۔ تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’ ادب کے مادی نظرئیے ‘‘ بھی شائع ہوا
ظہیر کاشمیری نے فلمیں بھی لکھیں( چند اہم فلمیں آس پاس، شیخ چلی،ہیر سیال،غیرت مند، خون، ناحق، کافی ہاؤس ہیں )
بیڈن روڈ کے ایک چھوٹے سے گھر میں زندگی گزاری. نسرین انجم بھٹی کہتی تھیں " ایک جن نے ایک ماچس کی ڈبی میں عمر گزاردی"
ظہیر کاشمیری کئی بار جیل گئے. تیسرے مجموعے "چراغ آخر شب" کا دیباچہ بھی کوٹ لکھپت جیل میں لکھا۔ پروفیسر سلیم الرحمنٰ راوی ہیں کہ ان کی آخری بیماری کے دنوں میں حکومت کے ایک اہم نمائندے نے فون پر کہا کہ علاج معالجے کیلئے ایک معقول رقم بھجوانے کا انتظام کررہے ہیں. انہوں نے جواب دیا " اپنی امداد اپنے پاس رکھو، مجھے نہیں چاہئیے، جو لوگ دنیا کو کچھہ دینے کیلئے آتے ہیں وہ لیا نہیں کرتے"
ظہیر کاشمیری نے اپنے بیٹے قیصر ظہیر کو وصیت کی تھی کہ ان کی قبر پر ان کا ہمارے بعد اجالا ہے والا شعر، سرخ رنگ سے لکھوایا جائے. سو میانی صاحب میں ان کی قبر کے کتبے پر یہی شعر درج ہے
ان کی وفات پر منو بھائی نے لکھا تھا" ہم نےان کی تمام دانشوری، علم و ادب، متنوع عالمانہ جہتیں اپنے ہاتھوں سے منوں مٹی کے نیچے رکھ دیں"
کچھ کلام
یہ کاروبارِ چمن اس نے جب سنبھالا ہے
فضا میں لالہ و گُل کا لہو اچھالا ہے
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخرِ شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں، اُجالا ہے
ہجومِ گُل میں چہکتے ہوئے سمن پوشو
زمینِ صحنِ چمن آج بھی جوالا ہے
ہمارے عشق سے دردِ جہاں عبارت ہے
ہمارا عشق، ہوس سے بلند و بالا ہے
سنا ہے آج کے دن زندگی شہید ہوئی
اسی خوشی میں تو ہر سمت دیپ مالا ہے
ظہیر ہم کو یہ عہدِ بہار، راس نہیں
ہر ایک پھول کے سینے پہ ایک چھالا ہے
آج کی شب تو بجھا رکھے ہیں یادوں کے چراغ
آج کی شب مری پلکوں پہ چراغاں کیوں ہے
۔۔۔۔
بدنام ہو کے عشق میں ہم سرخرو ہوئے
اچھا ہوا کہ نام گیا ننگ رہ گیا
ہوتی نہ ہم کو سایہء دیوار کی تلاش
لیکن محیطِ زیست بہت تنگ رہ گیا
سیرت نہ ہو تو عارض و رخسار سب غلط
خوشبو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا
اپنے گلے میں اپنی ہی بانہوں کو ڈالیے
جینے کا اب تو ایک یہی ڈھنگ رہ گیا
کل کائنات فکر سے آزاد ہو گئی
انسان مثال دست تہِ سنگ رہ گیا
ہم ان کی بزمِ ناز میں کیوں چپ ہوئے ظہیر
جس طرح گھٹ کے ساز میں آہنگ رہ گیا
ہجر و وصال کی گرمی سہتا ہے
دل درویش ہے پھر بھی راضی رہتا ہے
ہر آنسو میں آتش کی آمیزش ہے
دل میں شاید آگ کا دریا بہتا ہے
مجھہ سے بچھڑ کے پہروں رویا کرتا تھا
وہ جو میرے حال پہ ہنستا رہتا ہے
دل کو شاید فصلِ بہاراں راس نہیں
باغ میں رہ کر پھول کے دکھ سہتا ہے
میں نے اس کو اپنا مسیحا مان لیا
سارا زمانہ جس کو قاتل کہتا ہے
تارا تارا ہجر کے قصے پھیلے ہیں
آنسو آنسو دل کا ساگر بہتا ہے
ان ہونٹوں سے یوں رستی ہے بات ظہیر
جیسے اک نغموں کا جھرنا بہتا ہے
تمام رات درِ میکدہ پر کاٹی ہے
سحر قریب ہے اب اپنے گھر ہی جائیں گے
تو میرے حال پریشاں کا کچھ خیال نہ کر
جو زخم تونے لگائے ہیں بھر ہی جائیں گے
وہ محفلیں وہ مصر کے بازار کیا ہوئے
اے شہر دل ترے در و دیوار کیا ہوئے
ہم راہ لطف چشم گریزاں بھی آئے گی
وہ آئیں گے تو گردش دوراں بھی آئے گی
اس ایک جمال گریزاں کی جستجو میں ظہیر
خراب و خوار ہوئی ہیں جوانیاں کیا کیا
مرنا عذاب تھا کبھی جینا عذاب تھا
میرا مشیر عشق سا خانہ خراب تھا
چلو دن بھر کی بےمصرف تھکن ہی ساتھہ لے جائیں
بوقتِ شام خالی ہاتھ گھر جانا نہیں اچھا
موسم بدلا رُت گدرائی اہلِ جنوں بے باک ہوئے
فصلِ بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.