Skip to main content

Mughal Azam Ki Kahani. The Story Of Producing Film Mughal E Azam

 Mughal Azam Ki Kahani. The Story Of Producing Film Mughal E Azam


درزی کی دکان چل پڑتی تو ’’مغلِ اعظم‘‘ نہ بنی ہوتی

...جب لتا اور رفیع کو فی گانا 500 سے 1000 ملتے تھے، بڑے غلام علی خان نے 25000 لئے

.... ’’مغلِ اعظم ‘‘ کی شوٹنگ بھٹو ، چو این لائی اور فیض نے بھی دیکھی



’’مغل اعظم‘‘ کے ڈائریکٹر کے آصف نے اپنی زندگی میں صرف دو فلموں کی ہدایت کی، ان کی پہلی فلم ’’پھول‘‘ تھی جو 1944 میں آئی اور دوسری 1960 میں 'مغل اعظم'۔ اس کے باوجود ان کا نام ہمیشہ ہندوستانی فلم کی تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔

ہمیشہ چٹکی سے سگریٹ یا سگار کی راکھ جھاڑنے والے کریم الدین آصف اداکار نذیر کے بھتیجے تھے۔ نذیر نے انھیں فلموں سے وابستہ کرنے کی کوشش کی لیکن آصف کا وہاں دل نہیں لگا۔ پھر نذیر نے اپنے بھتیجے کے لیے درزی کی ایک دکان کھلوا دی۔ تھوڑے ہی عرصے میں وہ دکان بند کروانی پڑی کیونکہ یہ دیکھا گیا کہ آصف کا زیادہ وقت پڑوس کے ایک درزی کی بیٹی کے ساتھہ رومانس میں گزر رہا ہے۔ ایک بار پھر نذیر نے انھیں فلمی صنعت میں زبردستی بھیج دیا۔


بھارت سے شائع ہونے والی کتاب

 ’’یہ ان دنوں کی بات ہے‘‘ کے مصنف یاسر عباسی بتاتے ہیں وہ مغل اعظم تقریباََ 100 بار دیکھہ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’ آج بھی جب ٹی وی پر وہ فلم دکھائی جاتی ہے تو میں چینل نہیں بدل سکتا‘‘


یاسر عباسی بتاتے ہیں کہ انارکلی کو دیوار میں زندہ چنوائے جانے کے منظر سے قبل اکبر ان سے آخری خواہش پوچھتے ہیں۔ اور وہ کہتی ہے کہ ایک دن کے لیے وہ ہندوستان کی عظیم الشان سلطنت کی ملکہ بننا چاہتی ہے۔ 'کے آصف نے اپنی فلم کے تینوں مکالمہ نگاروں سے پوچھا کہ انارکلی کو کیا کہنا چاہیے۔ امان اللہ صاحب جو زینت امان کے والد تھے اور احسان رضوی نے اپنے لکھے ڈائیلاگ سنائے۔ اس کے بعد آصف صاحب نے وجاہت مرزا کی طرف دیکھا۔'

وجاہت مرزا نے پان کی پیک اگلدان میں ڈالتے ہوئے کہا کہ 'یہ سب مکالمے بکواس ہیں۔ اتنے سارے لفظوں کی کیا ضرورت؟'

'پھر انھوں نے اپنے پاندان سے ایک پرچی نکال کر پڑھا، انارکلی صرف سلام کرے گی اور بس اتنا کہے گی کہ 'شہنشاہ کی ان بے حساب بخششوں کے بدلے میں یہ کنیز جلال الدين محمد اکبر کو اپنا یہ خون معاف کرتی ہے۔'

مرزا کا یہ کہنا تھا کہ آصف نے بھاگ کر انھیں گلے لگا لیا اور وہاں موجود دونوں مکالمہ نگاروں نے اپنے اپنے پرزے پھینک دیے۔'


لچھو مہاراج نے مدھوبالا کو کتھک رقص سکھایا


جب 'موہے پنگھٹ پہ نندلال چھیڑ گیو' گانا فلمایا جا رہا تھا تو پہلے آصف اور پھر رقص ڈائریکٹر لچھو مہاراج موسیقار نوشاد کے پاس گئے اور کہا: 'نوشاد صاحب یہ گانا ایسا بنائیں کہ واجد علی شاہ کے دربار کے زمانے کی ٹھمری اور دادرا یاد آجائے۔'

نوشاد نے کہا کہ كتھک رقص میں چہرے اور ہاتھ کے بھاؤ سب سے اہم ہوتے ہیں۔ اسے مدھوبالا پر فلمایا جائے گا۔ لیکن کیا وہ اس کے ساتھ انصاف کر پائیں گی، کیونکہ وہ كتھک رقاصہ تو ہیں نہیں؟' لچھو مہاراج نے کہا، یہ آپ مجھہ پر چھوڑ دیں۔ انھوں نے شوٹنگ سے پہلے مدھوبالا سے رقص کی گھنٹوں مشق کروائی۔ مکمل گیت ان پر فلمایا گیا اور کسی 'ڈپلیکیٹ' کا استعمال نہیں کیا گیا۔'


بھٹو مغل اعظم کی شوٹنگ میں روزانہ آتے


دلچسپ بات یہ ہے کہ اس گیت کی شوٹنگ دیکھنے بہت سے لوگ آیا کرتے تھے جن میں بہت سے معروف لوگ بھی شامل تھے جن میں چینی وزیر اعظم چو این لائی، معروف شاعر فیض احمد فیض اور بعد میں پاکستان کے وزیر اعظم بننے والے ذوالفقار علی بھٹو اہم تھے۔ یاسر عباسی بتاتے ہیں: 'اس زمانے میں بھٹو ممبئی میں ہی رہا کرتے تھے۔ اس گانے کی شوٹنگ جتنے دن جاری رہی، وہ روز شوٹنگ دیکھنے آتے۔ بھٹو اور آصف میں گہری دوستی تھی۔ وہ جب بھی سیٹ پر ہوتے تھے، آصف صاحب اور دیگر لوگ ساتھ ہی کھانا کھاتے تھے۔ 'اس وقت کسی کے حاشیہ خیال میں نہیں آيا ہوگا کہ یہ شخص ایک دن پاکستان کا وزیراعظم بن جائے گا۔'


بیلجیئم سے منگائے گئے تھے شیش محل کے شیشے


اس فلم کی جان کے آصف کی باریک بینی تھی جس کے تحت وہ چھوٹی سے چھوٹی چیز پر بھی نظر رکھتے تھے۔ فلم میں جودھا بائی نے جو کپڑے پہنے وہ حیدرآباد کے سالار جنگ میوزیم سے مستعار لیے گئے تھے۔ سیٹ کے محراب، ستون اور دیواروں کو بنانے میں مہینوں لگ گئے تھے۔ خدیجہ اکبر نے اپنی کتاب 'دی سٹوری آف مدھوبالا' میں لکھا کہ 'شیش محل کا سیٹ بنانے میں پورے دو سال لگ گئے۔'

کے آصف کو شیش محل کی تحریک آمیر کے قلعے میں تعمیرشدہ شیش محل سے ملی تھی لیکن اس وقت ہندوستان میں دستیاب شیشوں کی قسم بہت اچھی نہیں تھی۔

ان شیشوں کو بہت زیادہ قیمت پر بیلجیئم سے منگوایا گیا۔ اس سے پہلے عید آگئی۔ عیدی کی رسم پر عمل کرتے ہوئے مغل اعظم کے فائنینسر شاہپور جی مستری آصف کے گھر پہنچے۔ 'وہ ایک چاندی کی ٹرے پر کچھ سونے کے سکے اور ایک لاکھہ روپے لے کر گئے تھے۔ آصف نے پیسے اٹھائے اور مستری کو واپس کرتے ہوئے کہا 'ان پیسوں کا استعمال بیلجیئم سے شیشے منگانے پر کیجیے۔'


’’جب پیار کیا تو ڈرنا کیا ‘‘ کی تخلیق


'مغل اعظم' فلم کا سب سے زیادہ مشہور گیت ’’پیار کیا تو ڈرنا کیا۔‘‘ ثابت ہوا۔ اس کو لکھنے اور موسیقی میں ڈھالنے میں نوشاد اور شکیل بدایونی نے ساری رات لگا دی۔

یاسر عباسی بتاتے ہیں: 'جب آصف نے نوشاد کو اس گانے کی 'سیچوئيشن' بتائی تو اسی زمانے میں انارکلی نام سے ایک دوسری فلم بن رہی تھی۔ نوشاد نے ان سے کہا کہ دونوں فلموں میں بہت مماثلت ہے ان کا گانا ریکارڈ کیا گیا ہے، جسے میں نے سنا ہے۔'


'اگر ہم بھی اسی طرح کے گیت دیں گے تو یہ 'رپيٹیشن' ہوگا۔ آپ اس 'سیچوئیشن' کو تبدیل کیوں نہیں کر دیتے؟۔ آصف صاحب نے کہا کہ ہم ایسا نہیں کریں گے۔ میں نے یہ چیلنج قبول کیا ہے۔ اب آپ کی باری ہے۔ جب اسے موسیقی میں ڈھالنے کا وقت آیا تو سب سے مشکل کام اس گیت کا لکھنا تھا۔


'شام کو چھہ بجے جب سورج غروب ہو رہا تھا نوشاد اور شکیل بدایونی نے اپنے آپ کو ایک کمرے میں بند کر لیا۔ شکیل صاحب نے قریب ایک درجن مکھڑے لکھے، کبھی گیت کا سہارا لیا تو کبھی غزل کا۔ لیکن بات بنی نہیں تھوڑی دیر میں پورے کمرہ کاغذ کے ٹکڑوں سے بھرا پڑا تھا۔'


انھوں نے ساری رات نہ کچھہ کھایا اور نہ ہی پیا۔ کافی دیر بعد نوشاد کو ایک پوربي گیت کا مکھڑا یاد آیا جو انھوں نے اپنے بچپن میں سنا تھا، 'پریم کیا کا چوری کری'۔ انھوں نے شکیل کو سنایا، شکیل کو وہ جملہ پسند آیا پھر شکیل نے اسی وقت وہ گیت لکھا ۔۔۔۔ پیار کیا تو ڈرنا کیا، پیار کیا کوئی چوری نہیں کی۔۔۔'

جب ہم صبح یہ گانا 'كمپوز' کر کے باہر نکلے تو ہمارے سر پر سورج چمک رہا تھا۔ مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پرانے گانوں کی مقبولیت کا راز کیا ہے؟ میرا جواب ہوتا ہے کہ ان کے بنانے میں پوری رات گزر جاتی تھی تب کہیں جا کر اسے حتمی شکل ملتی تھی۔'


بڑے غلام علی خان کو ایک گیت کے لیے 25000 روپے ملے


ایک دن آصف نے نوشاد سے کہا کہ وہ سکرین پر تان سین کو گاتے ہوئے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ سوال تھا کہ اسے گائے گا کون؟ نوشاد نے کہا کہ اس وقت کے تان سین بڑے غلام علی خان سے اس کے بات کرنی چاہیے لیکن وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ یاسر عباسی بتاتے ہیں: 'آصف نے کہا یہ آپ مجھہ پر چھوڑ دیں۔ آپ صرف ان سے ملاقات کا وقت طے کیجیے۔‘ جب دونوں ان سے ملنے گئے تو انھوں نے انکار کردیا اور کہا کہ فلموں میں گلوکاروں پر بہت پابندیاں ہوتی ہیں۔

آصف نے کہا کہ 'خان صاحب یہ گانا تو آپ ہی گائیں گے۔' یہ سن کر بڑے غلام علی خاں نے نوشاد کو ایک طرف لے جا کر کہا، آپ کس کو میرے پاس لے آئے ہیں؟ میرے منع کرنے پر بھی یہ کہہ رہا ہے یہ گانا تو آپ ہی گائیں گے۔ میں اس شخص سے اس گانے کے لیے اتنی زیادہ فیس مانگوں گا کہ خود ہی بھاگ کھڑا ہوگا۔'


غلام علی نے آصف سے پوچھا، ’آپ مجھے کتنے پیسہ دیں گے؟‘

آصف نے کہا: ’جو بھی آپ چاہتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا: '25 ہزار روپے۔'

آصف نے کہا ’صرف 25 ہزار؟ آپ اس سے زیادہ مستحق ہیں۔'

اس طرح بڑے غلام علی خاں 'مغل اعظم' فلم کے لیے 25ہزار روپے پر راضی ہوئے جبکہ اس وقت کے نامورگلوکاروں لتا منگیشکر اور محمد رفیع کو ایک گانے کے لیے صرف 500 سے 1000 روپے ہی ملتے تھے۔'

بڑے غلام علی خان نے مغل اعظم کے لیے 'پریم جوگن بن کے۔۔۔ سندر پیا اور چلے' گیت گایا۔


مدھوبالا اور دلیپ کمار کے درمیان بات چیت بند


مغل اعظم بننے کے آخری مرحلے میں مدھوبالا اور دلیپ کمار کے درمیان بات چیت بند ہو گئی تھی، کیونکہ مدھوبالا نے اپنے خاندان کے دباؤ کے تحت دلیپ کمار کی شادی کی پیشکش ٹھکرا دی تھی۔

فلم میں درجن سنگھہ کا رول کرنے والے اجیت نے ایک بار لکھا تھا کہ 'ایک سین میں دلیپ کمار کو مدھوبالا کو تھپڑ مارنا تھا۔ جب کیمرا رول ہوا تو دلیپ کمار نے مدھوبالا کو اتنی زور سے تھپڑ مارا کہ وہاں موجود سارے لوگ سناٹے میں آ گئے، شاٹ ٹھیک تھا، لیکن لوگوں کو سمجھہ نہیں آیا کہ اگلا قدم کیا ہوگا؟'

"کیا مدھوبالا سیٹ سے واک آؤٹ کر جائیں گی؟ کیا شوٹنگ روکنی پڑے گی؟ اس سے پہلے کہ مدھوبالا کچھ كہتيں، آصف انھیں کونے میں لے جا کر کہنے لگے 'میں آج بہت خوش ہوں، کیونکہ یہ واضح ہے کہ وہ اب بھی تم سے محبت کرتا ہے۔ اور یہ کہ ایک عاشق کے علاوہ کوئی اپنی معشوقہ سے ایسا کیونکر کر سکتا ہے؟'


مدھو بالا کے والد کو رمی میں الجھانا


آصف کے سامنے یہ مشکل تھی کہ مدھوبالا کے والد عطاء اللہ اکثر فلم کی شوٹنگ کے دوران سیٹ پر حاضر رہتے تھے لیکن آصف نے ان سے چھٹکارے کی نئی راہ نکالی۔

فلم مؤرخ بنی ريوبن اپنی کتاب ’’ہالی وڈ فلیش بیک: اے کلیکشن آف فلم میموائرس‘‘ میں لکھتے ہیں: 'جس دن دلیپ کمار اور مدھوبالا کے درمیان قریبی محبت کے مناظر فلمائے جانے ہوتے تھے، آصف مدھوبالا کے والد عطاء اللہ خان کو سیٹ سے دور رکھنے کے لیے انھیں اپنے ایک معاون کے ساتھہ رمی کھیلنے بھیج دیتے۔ کیونکہ عطاء اللہ کو رمی کا بہت شوق تھا۔

اپنے پبلسسٹ تاركناتھ گاندھی کو چند ہزار روپے دے کر کہا، آج سے تمہارا کام، اگلے چند دنوں تک خاں صاحب کے ساتھہ رمی کھیلنا ہے اور تم جان بوجھہ کر ہر بازی ہار جاؤ گے۔'


فلم کی تکمیل کے لیے سہراب مودی سے رابطہ


برسوں کی شوٹنگ کی وجہ سے فلم اپنے بجٹ سے تجاوز کر گئی اور فلم ساز شاہپورجی مستری یہ بھی سوچنے لگے کہ فلم کے آصف سے لے کر سہراب مودی کی ہدایت میں بنے۔ یاسر عباسی بتاتے ہیں: 'اس فلم کو بننے میں بہت وقت لگا۔ دس سال کا عرصہ گزرا۔ ظاہر ہے سارا بجٹ بگڑ گیا۔ آصف صاحب پانی کی طرح پیسہ بہاتے تھے، کیونکہ انہیں معیار چاہیے تھا۔ ایک دن تنگ آکر شاہپورجی نے فیصلہ کیا کہ اب میں ہدایتکار کو ہی تبدیل کروں گا۔'

انھوں نے سہراب مودی سے بات کی اور ایک دن وہ انھیں شیش محل کا سیٹ دکھانے لے آئے۔ آصف صاحب وہاں موجود تھے۔ تھوڑی دیر تک وہ خاموشی سے دیکھتے رہے، پھر وہ دونوں کے پاس جا کر بولے، سیٹھہ جی جس سے چاہے یہ فلم مکمل کروا لیں، لیکن یہ سیٹ میں نے بنایا ہے اور میں ہی یہاں شوٹنگ مکمل کروں گا۔ اگر کوئی دوسرا اس سیٹ پر قدم رکھے گا تو میں اس کی ٹانگیں توڑ دونگا۔'


کے آصف کے پاس اپنی گاڑی بھی نہیں تھی


مغل اعظم اپنے وقت کی سب سے مہنگی اور کامیاب فلم تھی لیکن اس کے ڈائریکٹر کے آصف تا عمر ایک کرایہ کے گھر میں رہے اور ٹیکسی پر سفر کرتے تھے۔

یاسر عباسی بتاتے ہیں: 'جب شاہپور جي بہت تنگ آگئے تو ان سے ایک بار نوشاد نے پوچھا کہ اگر آپ کو آصف سے اتنی شکایات ہیں، تو آپ نے ان کے ساتھہ فلم بنانے کا فیصلہ ہی کیوں کیا؟ شاہپورجی نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر کہا کہ نوشاد، ایک بات بتاؤں، یہ آدمی ایماندار ہے۔ اس نے اس فلم میں ڈیڑھ کروڑ روپے خرچ کر دیے لیکن اپنی جیب میں ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں ڈالی۔ باقی تمام فنکاروں نے اپنا کنٹریکٹ کئی بار تبدیل کرایا کیونکہ وقت گزرتا جا رہا تھا۔ لیکن اس شخص نے پرانے کنٹریکٹ پر کام کیا اور کسی قسم کی دھوکہ دہی نہیں کی۔ رقم میں کوئی غبن نہیں کیا۔ یہ آدمی آج بھی چٹائی پر سوتا ہے، ٹیکسی پر چھہ آنہ فی میل کرایہ دے کر سفر کرتا ہے اور سگریٹ بھی دوسروں سے مانگ کر پیتا ہے۔ یہ آدمی 20 گھنٹے کھڑے ہو کر مسلسل کام کرتا ہے اور ہم حیران رہ جاتے ہیں۔'


۔۔۔۔ بی بی سی 



Mughal Azam Ki Kahani. The Story Of Producing Film Mughal E Azam. Ye Un Deno Ki Baat Hain. Urdu Film Mughal azam, K Asif, Chu In Li, Zulfiqar Ali Bhutto and Mughal Azam Shooting.

Production Of Mughal E Azam Story In Urdu.

Pashto Times Film Review.


Comments

Popular posts from this blog

New Pashto Poetry Lines And Lyrics. Pashto Tappay In Written Text.

New Pashto Poetry Lines And Lyrics. Pashto Tappay In Written Text. Pashto Poetry Two Lines. Pashto Tappay In Text. ‏د خوېندو لوڼو سوداګره کږه شمله چې په سر ږدې خندا راځينه ټپه# که د پیزوان خاطر دې نه وے تابه زما د غاښو زور لیدلې وونه #ټپه ‏ستا یارانۍ ته مۍ زړه کیږۍ په څه خبره به اشنا درسره شمه خلک پېزوان خونړی بولي تا په نتکۍ د کلا برج ونړونه  Pashto New Tapay On Images 2022. Pashto Tappay In Text. Eid Mubarak Pashto Tapay. Pashto Eid Poetry. اختر ته ځکه خوشالیګم چی مسافر جانان می کلی ته راځینه Eid Mubarak In Pashto Tapa. Folk Songs Akhtar. اختر پرون وو پرون تیر شو تا تر څنګلو پوري نن سره کړل لاسونه Akhtar Janan Aw Pukhto Tapay. Eid Mubarak Poetry Pashto. خلکو اختر کښی غاړی ورکړی زه بی جانانه ګوټ کښی ناست ژړا کوومه خپل د راتلو لوظ دې ياد دے؟ سبا اختر دے انتظار به دې کومه Eid Mubarak In Pashto Language. Akhtar Di Mubarak Sha. اختر دی مبارک شه مورې څلور کمڅۍ مې وکړه دوه مې د خيال او دوه د کچ اختر ټالونه په ما دې ورځ د لوی اختر کړه چې دې په سترګو راله کېښودل لاسونه يوه روژه بله غرمه ده جا

Zama Zargiya Meaning In Urdu. Pashto Words Meanings

Zama Zargiya Meaning In Urdu. Pashto Words Meanings. Learn Pashto Words and Meanings. Info Different Contextual Uses Of Pashto Phrase Zama Zargiya or Zama Zargia. Pashto Language Words Internet Is Searched For Pashto Words Meaning Daily as People Speaking Languages Other Than Pashto Want To Learn Some Basic and Most Used Phrases. Search For Pashto Phrase " Zama Zargiya " Increased By 1150 % Today. Zama Zargiya Meaning In Urdu.  میرا جگر یا میرے دل کا ٹکڑا میرا جگر،  میرا محبوب یا میرے محبوب The Phrase Simply Means My Darling Or Sweetheart In English. Pashto. Zama Zargiya زما زړګیه English. Darling Or My Darling Or My Dear Or My Sweetheart. In Urdu Zama Zargiya Means " Meray Aziz " Meray Mehboob" Or Meray Humnasheen. Best Phrase For Zama Zargiya In Urdu. Meray Jigaar Or Jiggar Pashto Word Zama Means Mera Or Meray.  Pashto Word Zargay Means Dil Or Jigar.  Pashto Language Words زما زړګیه میرے محبوب میرے ہم نشین میرے جگر کا ٹکڑا "Zama Zargia Endearment Urdu&qu

Pashto Calendar. Calendar Of Months In Pashto

Pashto Calendar. Calendar Of Months In Pashto. Pashto Names Of Calendar Year 2022, 2023, 2024, 2025 Pashto Calendar: Names Of Months And Its Span In Pashto بېساک              Besak       (Apr—May) جېټ                Jheet       (May—Jun) هاړ                  Harh           (Jul—Jul) پشکال.            Pashakal         (Jul—Aug) بادرو               Badro        (Aug—Sep) اسو                Asu         (Sep—Oct) کتک               Katak         (Oct—Nov) مګن               Magan        (Nov—Dec) پوه                Po         (Dec—Jan) ما                  Ma       (Jan—FebF) پکڼ               Pagan        (Feb—Mar) چېتر             Chetar         (Mar—Apr) Pashakal Starting Date Is 14 July 2022.  Pashakaal Ending Date Is 14 August 2022. د پشکال ګرمي پۀ زور ده  زلفې دې غونډې کړه چې نۀ دې تنګوينه ټپه۔ په مخ یې پَشم دَ خولو دې دَ لمر په خوا دَ ملغلرو پړک وهینه۔ په اننګو کښي قوتۍ دي د پشکال خولي پري ډنډ ولاړي دینه Badro Starting Date Is 15 August 2022. Badro Ending Date Is 14 September 2022. Aso