Aslam malik
1974 میں پنجاب یونیورسٹی شعبہ صحافت میں پہلے دن تعارف کے موقع پر ایک گورے چٹے، کچھ زیادہ عمر اور زیادہ وزن والے کلاس فیلو نے کہا میرا شہر آپ میں سے اکثر نے دیکھا ہوگا.
پھر وضاحت کی کہ وہیں سے تو ISSB میں فیل ہوکر آئے ہوں گے.. کوہاٹ.
ان سے دوستی ہوگئی. پشتو تو جانتے ہی تھے. ہندکو مادری زبان تھی. سو کمیونیکیشن کا کوئی مسئلہ نہیں تھا. کوئی ان کے سامنے پٹھانوں کا لطیفہ سناتا تو انجوائے بھی کرتے اور سنانے والے کو پریشان بھی کہ یہ پٹھان تو پنجابی سمجھ گیا. کبھی کبھی ایک لوہار کی سی قسم کا جواب بھی دیتے.
شاید ان کا رنگ روپ دیکھ کر انہیں اس ہوسٹل میں کمرہ دے دیا گیا جہاں کافی غیر ملکی تھے. لیکن ملاقات روز ہوتی.
پتہ چلا کہ اکنامکس میں ایم اے پہلے ہی کرچکے ہیں. خبر ایجنسی پی پی آئی سے منسلک ہیں. ایم اے صحافت کے بعد لندن جاکر بھی صحافت کا ڈپلوما حاصل کیا، اس دوران پی پی آئی کی نمائندگی بھی کرتے رہے.
واپس آکر پشاور میں پی پی آئی کے صوبہ سرحد کے بیورو چیف بنے. افغان جنگ کا زمانہ تھا، طالبان قیادت اور خبریں پشاور میں تھیں، سو ثنا اللہ خان رائٹر جیسی بین الاقوامی خبر ایجنسیوں کے سٹرنگر/کنٹری بیوٹر ہی نہیں بن گئے، ٹائم، نیوز ویک جیسے جرائد نے بھی خدمات حاصل کیں. کئی سٹوریز الگ سے یا ان کے کاررسپانڈنٹس کی سٹوریز کے ساتھ کو آتھر کے طور پر چھپیں.
پھر پاکستان ٹائمز کے بیور چیف بنے. انہی دنوں گورنر سرحد سے ملاقات ہوئی تو کہا پشاور یونیورسٹی میں صحافت کا شعبہ بھی ہونا چاہیے. وہ مان گئے اور کہا تو آپ ہی بنائیں، سو ثنا اللہ 1985 میں شعبے کے بانی چیئرمین بنے اور اب حافظ ثنا اللہ خان (زیادہ تر حافظ صاحب ) کہلانے لگے. اسی عرصے میں پنجاب یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کیلئے رجسٹریشن بھی کرالی، جو اگرچہ مکمل ہونے میں بہت طویل عرصہ لگ گیا.
یونیورسٹی میں آغاز ڈپلومے سے ہوا اور چند سال میں ایم اے شروع ہوگیا. ایک پرچے کا مجھے دس سال تک واحد ایگزامینر بنائے رکھا. یعنی پرچہ بناتا بھی میں تھا اور مارکنگ بھی میں کرتا تھا. میں روایتی استادوں کی طرح نہیں، توجہ سے پرچے پڑھتا تھا تو کافی وقت لگتا تھا. میں نے معذرت کی تو کہنے لگے، یار، آپ ہی تو صحیح چیک کرتے ہو، جو آپ کے پرچے میں زیادہ نمبر لیتے ہیں، وہی پوزیشنیں لیتے ہیں. اس میں کمال ان کا اور یونیورسٹی کا بھی تھا کہ سیکریسی یقینی بنائی، کوئی امیدوار مجھ تک نہیں پہنچا، صرف ایک بار محکمہ اطلاعات کے کسی بڑے افسر کا فون آیا کہ ان کے ایک لائق اور محنتی افسر نے امتحان دیا ہے، دوسرے طالب علموں جتنی تیاری کا تو وقت نہیں ملا، اچھے نمبروں سے پاس ہوجائے تو ترقی میں آسانی ہوگی، محکمے کا بھی فائدہ ہوگا. پرچہ میں پہلے ہی دیکھ چکا تھا. وہ کلاس نوٹسز والا نہیں تھا، مختلف اور اچھا تھا. ایسے پرچوں کو میں ویسے ہی زیادہ نمبر دیتا تھا.
ایک بار مجھے ایک وائیوا کیلئے بلایا. سب طالب علموں سے تعارف ہوا. ایک افغان مہاجر بھی تھا اور ایک فلسطینی بھی جو عرب اخبار (شاید الشرق الاوسط) کے نمائندے کے طور پر پشاور میں تھا اور وہاں داخلہ بھی لے لیا. اس کی بیوی اور ایک سال کی بچی باہر منتظر ہوتے.
پھر پتہ چلا کہ تھیسس کے وائیوا کیلئے جو اصحاب آرہے تھے ، وہ نہیں آرہے. سارے تھیسس میرے حوالے کرکے کہا گیا کہ دن رات میں پڑھ لوں اور ان کا وائیوا بھی میں لوں. لڑکے حیران بہت ہوئے جب انہیں لگا کہ میں نے پورا تھیسس پڑھا ہوا ہے. 30 سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے، کئی عمدہ تھیسس اور لکھنے والے اب بھی ذہن میں ہیں مثلاً لیاقت کا قبائلی علاقوں کی صحافت کے بارے میں. لیاقت کے محکمہ تعلقات عامہ میں جانے کا پتہ چلا تھا. پتہ نہیں کہاں ہیں، تھیسس چھپا یا نہیں.
ایک پشتون طلباء تنظیم کے لیڈر تھے سردار بوبک، سیاسی باتیں کرتے رہے عرصے بعد خبروں سے پتہ چلا کہ اے این پی حکومت میں تعلیم اور اطلاعات کے وزیر بھی بنے.
حافظ ثنا اللہ خان شعبے کو فعال کرکے الگ ہوگئے تو صحافت میں زیادہ سرگرم ہوگئے. دو تین اخباروں کے بیورو چیف رہے. "حافظ کی باتیں" کے عنوان سے کالم لکھے جن میں صوبے کی صحافت اور سیاست اور "جہاد افغانستان " کی کہانیاں محفوظ کیں.
پھر اپنا انگریزی روزنامہ Frontier Star نکالا جس میں بیسیوں نوجوانوں کو تربیت دی. یہ اب پشاور کے ساتھ پنڈی سے بھی نکلتا ہے.
ثنا اللہ خان پہلے بھی حتیٰ الامکان رابطہ رکھتے تھے. واٹس ایپ کا استعمال شروع کیا تو روزانہ اپنا اخبار بھی pdf میں بھیجنے لگے. اس کے علاوہ اپنے وسیع حلقے سے جمع ہونے والی واٹس ایپ پوسٹس کا انتخاب بھی.
نیچے والی نئے حلیے کی تصویر کوئی تین ہفتے پہلے بھیجی تھی.
کل میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی. رات تک سویا رہا. اٹھ کر فون دیکھا تو پتہ چلا کہ ہمارا دوست اس وقت تک منوں مٹی تلے ہوگا. ابھی ان کے جنازے کی ویڈیو دیکھ ہے. کسی مقبول سیاسی لیڈر سے کم لوگ نہیں تھے.
ہاسٹل میں کلاس فیلوز میں سے یٰسین چودھری اور ثنا اللہ خان کے ساتھ زیادہ وقت گزرا، ان میں سے بس میں رہ گیا ہوں.
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.