History Of Pashtun Sikh War On 1st April 1823 at Akora Khattak. Urdu Info
یکم اپریل 1823ءء کی صبح پٹھانوں اور سکھوں کے درمیان آخری معرکہ اکوڑہ کے مقام پر ہوا۔
شام تک یوسفزئی کے ہزاروں کی لشکر میں صرف دو سو یوسفرئی میدان جنگ میں تھے اورسہ پہر کو سکھ ہمت ہار نے لگے تو رنجیت سنگھ نے کھڑک سنگھ کو آرام کا مشورہ دیتے ہوئے خودقیات سنبھال لی۔ چراٹ کی پہاڑیوں کی اوٹ میں سورج غرو ب ہوتے ہی یوسفزیوں کا لشکر بھی ختم ہوا اور سکھوں نے فتح کا جشن منایا ۔۔۔۔۔۔ اور یوسفزئ قبیلے کے ہر گھر میں ماتم تھا یوسفزئ قبیلے کا ہر گھر سے سے کوئی نہ کوئی شہید ہوا تھا
پھر 6مئی 1836ءء کے دن بالا کوٹ کے مقام پر یار محمد ، دوست محمدہوتی اور احمد خان ہوتی کے علاوہ امیرکابل کے گھڑ سوار دستے سکھوں کے شانہ بشانہ میدان جنگ میں اُترے اور غریب الوطن مسلمان مجاہدین پر حملہ آور ہوئے ۔
افغانوں اور سکھوں کو خفیہ راستوں سے بالا کوٹ کے سرداروں نے واقفیت دلائی اور گائڈ مہیا کیے ۔ مقامی لوگ مجاہدین کی مضبوط چوکیوں کی نشاندہی نہ کرتے تو سکھ کبھی کامیاب نہ ہوتے ۔ بالاکوٹ کے معرکے میں پٹھان خواتین کا ایک دستہ بھی مجاہدین کے ہمرا ہ تھا ۔ یہ وہ ہی دستہ تھا جو اپنے گھروں سے ذاتی سامان اور زیورات لیکر مایارکے مقام پر آیا اور مجاہدین کی صفوں میں شامل ہوکر سکھوں اور پشاور کے درانیوں کی مشترکہ فوج کو عبرت ناک شکست دی ۔
یہ دستہ مردان کے نوابوں اور ہوتی کے خوانین کی بیویوں اور بیٹوں پر مشتمل تھا۔ پتہ نہیں طرابلس کی مجاہد ہ فاطمہ بنت عبداللہ کے جذبہ شہادت پر لکھنے والے علامہ اقبال کو ہوتی کی رانیاں کیوں بھول گئیں۔ شکر ہے کہ ہمارے جدید علوم سے لیس دانشوروں کا تاریخی علم محدود ہے ورنہ وہ ان عظیم خواتین کو غیرت بریگیڈ کہہ کر اپنی دانش کی داد حاصل کرتے۔
تحریک مجاہدین کے اغراض و مقاصد اور معرکہ بالا کوٹ پر تاریخ دانوں اور تجزیہ نگاروں نے کبھی توجہ نہیں دی۔ جس طرح انگریزکبھی جنگ ماوند کا ذکر نہیں کرتے اسی طرح تحریک مجاہدین کی مخالفت کرنے والے علماء کے مقلدین پاکستانی سیاست کا اہم حصہ ہونے اور مسلکی اختلافات کی بنیاد پر اس تحریک کے اثرات پر لکھنے اور بولنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ تحریک آزادی پاکستان کی بنیاد حضرت شاہ ولی اللہ نے رکھی اور دو قومی نظریہ پیش کیا ۔
تحریک مجاہدین نے اسی نظریے کی اساس پر جہاد کا آغاز کیا اور ابتدائی کامیابیوں کے بعد اپنوں کی بے وفائی اور ہوس پرستی کی وجہ سے یہ تحریک ایک نیا رُخ اختیار کر گئی۔
سکھوں کے بعد علماء اور حکمران ٹولہ انگریزوں کا ہمنوا بن گیا مگر جد وجہد آزادی کے متوالوں نے حب الوطنی اور غیر ت ایمانی کی شمع جلائے رکھی۔ سیّد احمد کی شہادت کے بعد یہ تحریک ختم نہ ہوئی۔
پنجاب ، سرحد اورکشمیر کے کچھ علاقوں سمیت بلوچستان اور افغانستان میں بھی اسی تحریک کے حامیوں نے مسلح جدوجہد کی مگر قیادت کے فقدان اور غداروں کی غداری نے ایک بار پھر کامیابی کو ناکامی میں بدل دیا۔
دوسری افغان جنگ میں انگریزوں کا ساتھ دینے والے دستوں میں مردان ، پشاور ، کوہاٹ ، اور بنوں کے قبائل برٹش انڈین آرمی کا حصہ تھے ۔
نواب آف بھاولپور اور امیران سندھ نے بھی افغانستان کے خلاف انگریزوں کی بھر پور مدد کی اور ہزاروں دیسی سپاہی اس جنگ میں مارے گئے ۔سیتا رام کی سرگزشت ، میں صوبیدار سیتارام نے اپنے انگریز کمانڈنگ آفیسر کی خواہش پر اس جنگ اور برطانوی افواج کی شرمناک شکست کے علاوہ 1857ءء کی جنگ آزادی کا احوال بھی لکھا۔
اس کتاب میں دردناک منظر وہ ہے جب صوبیدار سیتارام کو جنگ آزاد ی کے باغیوں کو گولی سے اُڑانے کا مشن دیا جاتا ہے۔وہ لکھتا ہے کہ اُس کی کمپنی ہر روز درجنوں باغی قیدیوں کو گولیوں سے بھون دیتی تھی۔ ایک دن سزائے موت کے قیدیوں کا ایک گروپ آیا اور انہیں دیوار مرگ کے ساتھ کھڑا کیا گیا۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔ نیازی افغان قبیلے کی عروج و زوال سے اقتباس تحقیق میاں علی نواز مدے خیل
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.