Pak Army Generals Salaries, Privileges and Total Expenses Explained In Urdu. Pashto Pedia
آرمی کے پاس 2 فل جنرل, 30 لیفٹنٹ جنرل اور 194 میجر جنرل ہیں. اس وقت 9 کور فوج کے لیے 29 لیفٹننٹ جنرل ہیں۔ 18 ڈویژن کے لیے 166 میجر جنرل۔ باقی نیچے بریگیڈئر، کرنل، لیفٹننٹ کرنل، میجر کا حساب لگا لیں۔ اس کے علاوہ ڈی جی آیی ایس پی آر جو کہ ایک کرنل رینک کی آسامی تھی اس پہ اب میجر جنرل لگایا جاتا ہے۔ یعنی ٹوئیٹر چلانے کے لیئے بھی فوج جرنیل استعمال کرتی ہے.
ایک جرنیل سے لے کر بریگیڈیئر، لیفٹننٹ کرنل تک ہر ایک فوجی، پاکستانی عوام کو کتنے میں پڑتا ہے، کبھی اس بارے میں آپ نے سوچا ہے ؟
اگر حقیقت آپ کے سامنے آجائے تو۔۔۔۔
عوام کی آنکھیں کھل جائیں گی اور سیاستدان فرشتے لگنے لگیں گے.
تنخواہ کے علاوہ مراعات جن میں دوران ملازمت مفت رہائشی بنگلہ، مفت بجلی، مفت پانی، مفت گیس، سی ۱۳۰ طیارے میں پورے ملک میں مفت سفری سہولت، پی آئ اے اور ریلوے سے رعایئتی ٹکٹ پر سفر کی سہولت، نوکر
(bat man)
کی سہولت، بریگیڈیئر اور اس سے اوپر والوں کے لیئے سٹاف کار (یعنی سرکاری گاڑی), بچوں کی آرمی پبلک اسکول، FWO
اسکول،
PAF
انٹر کالجز، بحریہ اسکول و کالج،
NUST
یونیورسٹی، الیکٹرکل اینڈ مکینکل انجنیئرنگ یونیورسٹی (EME)
میں مفت پیشہ ورانہ تعلیم، آرمی میڈیکل کالج میں مفت ڈاکٹری کی تعلیم، آرمی, ایئرفورس اور نیوی اسپتالوں میں فوجیوں کا اپنا، ان کے بچوں، بیوی اور والدین کا تا حیات مفت علاج، ریٹائیرمنٹ کے بعد تمام جائداد ویلتھ ٹیکس سے مستثنی، فلیٹ، ولاز، دکانیں، پلاٹ، مربعے اور نہ جانے کیا کیا ان فوجیوں کو دیا جاتا ہے۔۔۔
اس کے علاوہ ریٹائرمنٹ کے بعد کسی سرکاری ادارے کا سربراہ لگا دیا جاتا ہے.
حب الوطنی کا راگ الاپنے والے اکثر جرنیلوں کے بچے یورپ اور امریکہ میں مہنگی ترین یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ریٹائر ہونے کے بعد یہ جرنیل خود بھی ملک سے باہر بھاگ جاتے ہیں. پچھلے چار آرمی چیف یعنی جہانگیر کرامت, مشرف, کیانی اور راحیل شریف ریٹائرمنٹ کے بعد ملک چھوڑ کر چلے گئے. سمجھ نہیں آتا کہ لاکھ دو لاکھ تنخواہ پانے والے یہ سرکاری ملازم اپنے بچوں کو یورپ اور امریکہ میں پڑھانے کا خرچہ کیسے اٹھاتے ہیں اور امریکہ یا یورپ کی شہریت اختیار کرنے کے لیئے لاکھوں ڈالر کا بینک بیلنس کیسے بنا لیتے ہیں.
ریٹائرڈ فوجیوں اوران کے خاندانوں کی فلاح کے نام پر ٹرسٹ اور فلاحی ادارے کی آڑ میں بینک, انشورنس کمپنیاں, فرٹیلائزر, سیمنٹ, سریئے کی فیکٹریاں, ڈیری فارمز, شوگر اور ٹیکسٹائل ملیں, مرچ مسالحے کی فیکٹریاں اور یہاں تک کہ پیٹرول پمپ اور شادی ہال تک چلائے جا رہے ہیں. ملک کی معیشت مسلسل زوال پزیر ہے, لوگوں کے کاروبار بند ہو رہے ہیں, سرمایہ ڈوب رہا ہے لیکن 1953 میں ملنے والے 18 لاکھ ڈالر سے چیرٹی کے نام پر شروع کیا جانے والا کاروبار ترقی کرتے آج اربوں ڈالر کا سرمایہ بن گیا ہے. کیا وجہ ہے کہ سولین سرمایہ کاروں کے 60 اور 70 کی دھائیوں میں شروع کیئے گئے سارے کاروبار زوال کا شکار ہوئے لیکن فوجیوں کے کاروبار ترقی کر کھ اربوں ڈالر تک پہنج گئے? کیا اس کی وجہ فوجیوں کی کاروباری مہارت ہے? بالکل نہیں بلکہ وجہ صرف یہ کہ جن لائسنسوں اور پرمٹوں کے لیئے عام سرمایہ کاروں کو کروڑوں روپوں کی ضمانتیں جمع کروانی پڑتی ہیں, اپنی اہلیت ثابت کرنے کے لیئے جتن کرنے پڑتے ہیں, سالوں دفتروں کے چکر کاٹنا اور ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے وہ ان فوجیوں کو بغیر چوں چراں کیئے دے دیئے جاتے ہیں. مزید یہ کہ اگر کسی کاروبار میں نقصان ہوتا ہے تو سرکاری بجٹ سے بھرپائی بھی کر دی جاتی ہے.
دکھ کا مقام ہے کہ دفاعی بجٹ کا آڈٹ کرنے کی جرات آج تک کسی سولین حکومت نے نہیں کی. فوج نے شہدا کے ورثاء کے نام پر لاکھوں ایکڑ شہری زمینیں لے کر ان پر ہاوسنگ سوسائٹیاں بنا ڈالیں اور شہریوں کو مہنگے داموں بیچ کر اربوں کما لیئے لیکن کسی کی جرات نہیں کہ سوال کر سکے. پاکستان میں اگر عام شہری کوئی فلاحی این جی او کھولنا چاہے تو دفاعی ایجنسیوں سے این او سی لینی لازمی ہوتی ہے. عام طور پر ایجنسیوں والے فنڈنگ کے زرائع کو غیر تسلی بخش قرار دے کر درخواستیں مسترد کر دیتے ہیں یا پھر درخواست گزار کو اتنا تنگ کرتے ہیں کہ وہ فلاح بہبود کے کام سے توبہ کر لیتا ہے جبکہ خود ریٹائرڈ فوجیوں کی فلاح بہبود کے نام پر ادارے بنا کر کاروبار کر رہے ہیں.
دنیا پھر میں ریاست کا قیام اپنے عوام کی فلاح بہبود اور سماجی معاشی ترقی کے لئے کیا جاتا ہے - لیکن اس ملک میں فلاح بہبود صرف فوجی ملازمین کے لیئےہے. فوج پچھلے ستر سال سے پاکستان کی غریب عوام کے منہ کا نوالہ چھین کر اپنا پیٹ بھر رہی ہے اور ساتھ میں آپ پر یہ احسان بھی جتا رہی ہے کہ آپ کو رات کو سکون کی نیند فوج کی وجہ سے آتی ہے یا یہ کہ اگر فوج نہ ہوتی تو ملک عراق, شام یا افغانستان بن چکا ہوتا. یعنی 1971 میں بنگلہ دیش میں ہتھیار ڈالنے والے اور 2011 میں امریکیوں کے آگے لیٹ جانے والے اگر نہ ہوتے تو ملک عراق بن چکا ہوتا. کوئ قوم بھی بھلا اتنی کم عقل اور نادان ہو سکتی ہے، جتنی کہ پاکستانی قوم ہے۔ بنگالی اس فوج سے جان چھڑانے کے بعد آج ایک خوشہال قوم بن چکے ہیں. محدود فوج رکھنے کے باوجود نہ ان کو بھارت سے خطرہ ہے نہ اسرائیل سے. آخر کیوں?
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.