Interesting Story Of Model Girl Ayyan Ali Jailed In 2015. Urdu Story
ماڈل ایان کی شہباز گِل کی آہ و بکا پر اپنے قیدو بند کے احوال کے ساتھ ایک دلچسپ تحریر
کرو کج جبیں پہ سر کفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرور عشق کا بانکپن پس مرگ ہم نے بھلا دیا
سن 2015 میں جب چند معلوم و نامعلوم کرداروں نے چند مخصوص و مذموم مقاصد حاصل کرنے کے لیے ہمارا انتخاب کیا تو کیا خیال ہے، وہ ذہنی جسمانی و صنفی تشدد کرنے سے جھجکے ہوں گے؟
جی نہیں!
وہ نہیں جھجکے
اڈیالہ جیل کے
Death Cell
میں گزرے اُن 4 ماہ کا ہر ایک دِن اور ہر ایک رات ایک مختلف تشدد کی داستان ہے، جسے سنانے کا حوصلہ شاید ابھی ہم میں نہیں مختصراً یہ کہ بیشتر مرتبہ بیچاری
Female Superintend
کو کہنا پڑتا تھا کہ "سر نہ کریں یہ لڑکی ہے آپ ایسا نہیں کر سکتے"
مگر وہ جو اُس وقت خود کو ریاستِ خداداد کا نا خُدا سمجھتے تھے
بیچاری
Female Superintendent
کی دہائی کیا سنتے
اُنہیں تو ایک
Video Recoreded
بیان چاہیے تھا
اُس بیان کو حاصل کرنے کے لیے جو جو حربے آزمائے گئے، اُن میں سے چند عدالتی اور چند
Medical Records
پر اپنے نقوش چھوڑ گئے
Medical Record
سے یاد آیا کہ جیل سے نکلنے کے بعد
Surveillance
کا یہ عالم تھا کہ ہمارے کسی
Clinic
کے معمولی سے
Visit
سے لے کر
Fast Food Chain
سے
Order
کیا گیا
Burger
تک ٹی وی پر
Live
رپورٹ ہوتا تھا اِس عالم میں پاکستان میں
Medical Examination
کروانا تو بعید از قیاس تھا
پہلی مرتبہ میڈیکل ایگزامینیشن کا موقع بھی 2 سال بعد Dubai
میں ملا جب
ECL
سے جان چھوٹی
اِس
Examination
میں پتہ چلا کہ 4 ماہ کے جسمانی و صنفی اور 2 سال کے نفسیاتی تشدد نے
Cardiomyopathy، Lower Back Lumbago
اور
Recurrent Chronic Depression
کے ساتھ ساتھ کئی
Life Long
تحفے دیے ہیں
اِن تحفوں کا کچھ اثر تو جیل کے ایام میں ہی واضح ہونا شروع ہو گیا تھا جب 4 ماہ میں وزن 58 کلو سے 90 کلو ہو گیا
اِس
Abnormal Weight Gain
کی وجہ
Harmonic Reaction To Gender Specific Violence
تھا
اِس
Violence
کا ذکر بھی ایک قرض ہے جو ہم کسی دِن ضرور ادا کریں گے (آمین)
ابھی تو مریم نواز شریف بھی باوجود دخترِ وزیر اعظم ہونے کے
Gender Specific Violence
کے مکمل بیان سے پہلو تہی کرتی ہیں کیونکہ معاشرہ شاید مکمل سچ سننے کا حوصلہ نہیں رکھتا
امید ہے وہ ہم اور ہم جیسے کئی اور کبھی
Trigger Warning
کے ساتھ ہی مگر یہ سچ بیان کر سکیں گے
بغیر کسی خوف کے
آج تو مقصد وہ داستان بیان کرنا نہیں
اُس داستان کے عوامی تاثر کی حقیقت بیان کرنا ہے
ہماری بارے میں عوامی تاثر یہ تھا کہ ہم جیل میں بیش بہا سہولیات سے مستفید ہیں اور غالباً عیاشی کی ایک زندگی گزار رہے ہیں
حقیقت یہ تھی کہ 6
x9
کے ایک سیل میں قید تھے جس میں درج ذیل صحولیات تھیں
ایک چٹائی
ایک گھڑا پانی (نیم گدلا)
ایک سیمی اوپن واش روم
ایک صابن جسے کئی بار توڑ کر دیکھا جاتا کہ اُس میں کوئی سیٹلائٹ فون تو نہیں
ایک شیمپو جو شاید صرف
Hair Fall
بڑھاتا ہی تھا
پنکھا جون جولائی میں مانگنے پر بھی نہ ملا مگر چھپکلیاں اور لال بیگ بنا مانگے لا تعداد فراہم کیے گئے
پنکھے کی کمی نیم گدلے پانی کے خود زمین پر چھڑکاو سے پوری ہو جاتی تھی اور چھپکلیوں اور لال بیگوں سے کچھ دوستی ہو گئی تھی، رات کے کسی پہر اُن کی خود پر موجودگی بھی
Solitary Confinement
میں ناگوار نہیں گزرتی تھی
کچھ کمپنی ہی محسوس ہوتی تھی
یہ تھی وہ عیاشی جسے بچشم خود دیکھنے کے لیے با وردی و بے وردی مرد اہلکا دن میں کئی بار خلافِ قانون سیل کی سرپرائز تلاشی لیتے تھے
یہ خیال کیے بغیر کہ کوئی مقیدِ قفس کس عالم میں ہے
آپ سب کے دِل میں یہ سوال ہو گا پھر یہ حالات دورانِ پیشی ہمارے چہرے پر واضع کیوں نہ ہوتے تھے؟
ہم کیوں ایک
Damsel In Distress یا Star Plus
کی زبان میں "ابلا ناری" کا عملی نمونہ دکھائی نہ دیتے تھے؟
اس کی وجہ بہت سادہ ہے
وہ یہ کہ ہم نے روزِ اول ہی یہ تہیہ کیا تھا کہ جو لوگ بہت گھمنڈ سے ایک
Supermodel
کو 48 گھنٹوں میں توڑنے کا وعدہ کر رہے تھے اُن کے گھمنڈ کو توڑنا تھا
یہ ثابت کرنا تھا کہ اُن کا تشدد اگر مردانِ سیاست برداشت کر سکتے ہیں تو
Independent
خواتین بھی برداشت کر سکتی ہیں
محض تشدد کے سامنے کوئی
Independent
لڑکی اپنے کردار کے منافی بیان نہیں دیتی
شائد کم عمری کی وجہ سے ہم خود کو دِل ہی دِل میں خواتین کا کوئی نمائندہ مان بیٹھے تھے
اور یہ سمجھ رہے تھے کہ اگر ہم ٹوٹے ہوئے دکھائی دیے تو عورت ٹوٹی ہوئی دکھائی دے گی اور آئندہ کوئی عورت پر اعتبار نہیں کرے گا
بس اسی زعم میں ہر پیشی سے پہلے کسی
African
ملزمہ کا جون جولائی کی گرمی میں دیا ہوا
Used Hoodie
لے کر پہنتے تھے جو چہرے اور گردن پر نشان چھپائے
کسی پاکستانی ملزمہ کا دیا ہوا
Eyeliner
، کسی کی دی ہوئی 100 روپے کی لپسٹک اور کسی کی فئیر اینڈ لولی ۔۔۔
اِن آلاتِ حرب سے لیس ہو کر ہم پدر شاہی معاشرے سے جنگ کرنے چل پڑتے تھے
مقصد یہی تھا کہ اپنے بد خواہوں کو تکلیف دیں اور نیک مندوں کو حوصلہ کہ لڑکی ابھی ٹوٹی نہیں
اِن آلاتِ حرب کے استعمال اور ہونٹوں پر مسکراہٹ کے اظہار کی قیمت ہر پیشی سے واپسی پر چکانی پڑتی
تضحیک آمیز تشدد کچھ درجے مزید بڑھ جاتا اور پابندیاں کچھ مزید سخت ہو جاتیں
جب بھائی و وکلاء تک سے ملاقات بھی بند کر دی گئی تو آنکھیں نم ضرور ہوئیں مگر تنہائی میں
دوسروں کے سامنے تو چولہے پر استری کیے گئے کپڑے سے زخم سیکتے بھی اُف نہیں کری تھی
ڈر لگتا تھا کہ کوئی ویڈیو نہ بنا لے اور یہ نہ کہتا پھرے کہ دیکھا نہ ٹوٹ گئی
اِن حالات میں دوسری قیدی خواتین ایسے
حوصلہ دیتی تھیں جیسے میں سچ میں اُن کی کوئی Leader
ہوں
یہ چولہے پر استری کیا گیا کپڑا،
Hoodie، Eyeliner، Lipstick
اور فئیر اینڈ لولی وہ ایسے لڑ جھگڑ کر فراہم کرتی تھیں گویا وہ بھی شاملِ جنگ ہوں
بعض اوقات تو حدود Cross ہوتی دیکھ کر میرے لیے احتجاج بھی کر ڈالتی تھیں
اُن کے یہی عمل لڑتے رہنے کا حوصلہ دیتے تھے
آج جب شہباز گِل کو روتے گڑگڑاتے اور مبالغہ کی حد تک اداکاری کرتے دیکھا تو دکھ ہوا کیونکہ وہ ایک سیاسی جماعت کے رکن اور کابینہ کے سابق ممبر ہیں۔
وہ یہ کیوں نہیں سوچ رہے کہ اُن کی بچگانہ حرکتوں سے اُن کے ہم جماعتی سیاستدانوں اور وزراء کولیگز پر کیا تاثر پڑے گا
کہ ذرہ برابر
Comfort Disturb
ہوئی نہیں اور مانند بھینسے کے ڈکارنا شروع کر دیا
عدالتی چوکھٹ پر ہی لیٹ گئے کہ میں نے نہیں جانا پولیس کے ساتھ
اور عدالتی فیصلوں کے ساتھ سانس نتھی ہو گئی جو اپنے صوبے کے وزیرِ داخلہ نے بھی مانی
ویسے اِس سے بھی بڑھ کر شرم کی بات کچھ اور ہے
سیاستدان و وزیر ہونے کے ساتھ ساتھ شہباز گل پدر شاہی یا Patriarchy
کے
Brand Ambassador
بھی تھے
خواتین کے متعلق گندی زبان، رقییق جملے بازی و
Toxic Masculinity
کے اظہار میں ان کا اپنا مقام تھا
اب یہ ہائے ہائے کار دیکھ کر پدر شاہی بھی سوچتی ہو گی کہ کس کو
Brand Ambassador
رکھا
شہباز گل سے گزارش ہے کہ اور کسی کے لیے نہیں تو اُن بیچارے
Misogynist
مردوں کے لیے ہی کچھ حوصلہ دکھائیں جو آپ کو Idealise
کرتے تھے
اگر آپ کی حالت دیکھ کر بیچاروں کی
Toxic Masculinity
مر گئی تو پاکستان کہیں ایک
Egalitarian
معاشرہ نہ بن جائے جو آپ بالکل نہیں چاہتے
آپ کے نشانے پر رہنے والی لا تعداد خواتین عاصمہ شیرازی، بے نظیر شاہ، غریدہ فاروقی اور ہم بھی آپ سے امید کرتے ہیں کہ آپ پدر شاہی کا اتنا مان تو رکھیں گے جتنا ہم نے عورتوں کا رکھا
ایسی امید تو بر نہیں آتی پر کیا پتہ آپ کو کچھ شرم آئے
اِسی شرم کی منتظر ہم آپ کی اگلی پیشی دیکھیں گے
اللہ رب العزت پاکستان کو شہباز گل آپ جیسوں اور آپ جیسوں کی سوچ سے محفوظ رکھے آمین یا رب العالمین
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.