How Arshad Sharif Killed In Kenya? By Shahzar Jelani.
ارشد شریف کیسے مرا؟
#شازار جیلانی
کینیا اور پاکستان ایک جیسے نظام کے ممالک ہیں۔ دونوں برطانوی کالونی رہے ہیں اور دونوں میں حکومت سے زیادہ مظبوط وہاں کی فوج پولیس اور بڑے لوگ ہیں۔ کرپشن اور جرائم عام ہیں۔ فراڈ کے طریقے لوگ کینیا والوں سے سیکھتے ہیں۔ کالے ڈالرز اور باپ سے ملا ہوا ناقابلِ رسائی ترکہ میں آپ کو شریک بنانے والے پیغامات کینیا سے ساری دنیا میں ملتے ہیں کینیا میں اس فراڈ کو 420 کہتے ہیں یعنی وہی دفعہ جو پاکستان میں دھوکہ دہی کیلئے لاگو ہے۔ اے آر وائی پروگرام میں گولڈ کا انعام اور بینظیر پروگرام میں آپکا حصہ والے جو پیغامات آپ کو ملتے ہیں وہ کینیا میں جاری جرائم کی نقل ہے جو سنٹرل پنجاب کے نوسرباز آپ کو بھیجتے ہیں۔
جہاں جرائم پیشہ لوگ بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے ہوں یا بڑے لوگوں تک رسائی رکھتے ہوں وہاں پر پیسے کی خاطر کچھ بھی کیا جاسکتا ہے۔
کینیا کی پولیس بھی اتنی ہی نکمی اور پیسہ خوش ہے جس طرح پنجاب اور سندھ کی پولیس مشہور ہے۔ اگر کینیا کی پولیس سمگلر سمجھ کر ارشد شریف کی گاڑی روکنا چاہتی تھی اور گولی چلانا ناگریز تھی تو طریقہ کار یہ ہے کہ ڈرائیور کی طرف گولی چلائی جائے، کیونکہ گاڑی روکنا نہ روکنا اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ پسنجر سیٹ پر بیٹھے ہوئے مسافر کو کیوں گولی ماری گئی؟
یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا بہت ساری گولیاں چلائی گئی تھیں اور ان میں سے ایک گولی اتفاقاً ارشد شریف کو لگ گئی۔ اگر ایسا کیا گیا ہوگا تو کار باڈی میں گولیوں کے کئی سوراخ ہونے چاہیے، لیکن گاڑی کی باڈی میں سوراخ نہیں ہیں اور ایک گولی چلائی گئی جو سیدھے ارشد شریف کے سر میں لگی تو پھر کئی سوالات اٹھتے ہیں۔
ارشد شریف سے میری کوئی ذہنی ہم آہنگی نہیں تھی میں اس کے طرزِ صحافت کے خلاف نام لے کر لکھتا رہا ہوں۔ لیکن ایک پاکستانی کی حیثیت سے یہ اس کا اور اس کی غمزدہ فیملی کا حق بنتا ہے کہ نیروبی میں موجود پاکستانی سفارتخانہ اس معاملے میں دلچسپی لیکر حقائق قوم کے سامنے لے آئے، کیونکہ ایک حلقہ شکوک وشبہات کا اظہار کرکے اشاروں کنایوں میں مخصوص طرف اشارہ کرتے ہیں جو اچھی بات نہیں۔ #شازار جیلانی
پس تحریر:
کینیا سے شائع ہونے والے ویب نیوز کے مطابق بچہ اغوا ہوا تھا پولیس اسے تلاش کر رہی تھی مشکوک کار سمجھ کر رکنے کا اشارہ کیا گیا کار رکی نہیں، فائر کی گئی گاڑی الٹ گئی پتہ چلا غلطی ہوگئی۔
وہ دبئی سے کینیا گیا تھا۔ دبئی نے اسے ڈی پورٹ کرکے اڑتالیس گھنٹے میں ملک چھوڑنے کا حکم دیا تو اسے کینیا کے علاؤہ کہیں اور جانے کا راستہ نہیں ملا کیونکہ پاکستان نہیں آنا چاہتا تھا وہ وہاں جاکر قتل ہوا۔
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.