Who is manzoor Pashteen. Urdu blog about Manzoor Pashteen.
.ڈاکٹر منظور پشتین اور پی ٹی ایم:
() مخلص نوجوان قیادت،سادہ مزاج مگر زیرک ،حاضر جواب،مدلل،مظلوم ،جابر ظالم اور وقت کے فرعونوں کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے والا ، پختہ عزم ،امید،صبر نڈر وبیباک ،مضبوط عصاب،
واضح موقف ،بیانیہ اورنصب العین العین کے مالک
ڈاکٹر منظور پشتین 25 اکتوبر 1994ء کو پرائمری سکول کے استاذ عبد الودود محسود کے ہاں جنوبی وزیرستان کے ۔۔۔۔ گاؤں ریشوڑہ تحصیل سروکئی میں پیدا ہوئے ۔شمن خیل قبیلےسے تعلق ہے۔۔۔۔آٹھ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں ۔۔۔۔۔ڈاکٹر منظور پشتین کے تین بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ ایک بھائی فوت ہوچکا ہے .۔
ان کے والد عبد الودود محسود اپنے گاؤں میں پرائمری اسکول کے استاد ہیں۔
()منظور پشتین نے ابتدائی تعلیم جنوبی وزیرستان میں اپنے گاؤں کے اسکول سے حاصل کی۔ اور پھر بنوں میں آرمی پبلک سکول اور وہیں سے کالج میں زیر تعلیم رہے۔ ڈاکٹر منظور پشتین کے بقول وہ اپنے سکول کے 52 طالب علموں میں واحد نوجوان ہیں، جنھوں نے ماسٹرز کی ڈگری مکمل کی ہے۔ انھوں نے 2016 میں گومل یونیورسٹی ، ڈیرہ اسماعیل خان سے ڈاکٹر آف ویٹرنری میڈیسن کی ڈگری حاصل کی۔ ۔....سیاسی شعور انہیں والد سے ورثے میں ملا.. ڈاکٹر منظور پشتین کا کہنا ہے کہ " ’میرے والد سکول میں استاد رہے ہیں۔ وہ کبھی بھی گھر پھل لے کر نہیں آئے۔ جس رقم سے وہ پھل خرید سکتے تھے انہی سے وہ ایک کتاب لے آتے تھے۔ وہی کتاب ہم سب پڑھ لیتے تھے۔‘".... والد اس کی تعلیم کو مکمل کرنے کے لیے پرعزم تھے۔ ڈاکٹر منظور پشتین کا کہنا ہے کہ "میرے والد نے میری اسکولنگ کے لیے پیسے ادھار لیا کرتے تھے۔۔۔اپریشنوں اور دھشت گردی جنگ نے سارے قبائل کے طرح ڈاکٹر منظور پشتیں کے تعلیم میں مشکلات دوبالا کیے تھے۔
()منظور پشتین کی شادی 2016 میں اس وقت آسیہ بی بی سے وقت ہوئی جب وہ خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی ظفر آباد کالونی میں کرائے کے مکان میں رہائش پذیر تھے۔۔۔۔منظور پشتین کی 26 سالہ اہلیہ چھٹی جماعت تک پڑھی ہوئی ہیں اور وزیر قوم سے تعلق رکھتی ہیں۔
پشتون خصوصاََ قبائلی معاشرے میں عورتیں عوامی مقامات پر نہیں دیکھی جاتی ہیں اسی لیے آسیہ بی بی بھی زیادہ وقت گھر بار چلانے میں گزارتی ہیں۔۔۔۔ان کی ایک تین سالہ بیٹی اور نو ماہ کا بیٹا ہے۔ ان کی پیاری سی بیٹی کا نام گل ورینہ ہے جس کو دادا پیار سے ’عالم ڈیوا‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں ۔۔۔بیٹے کا نام ہیواد پشتین یعنی ملک یا مملکت رکھا ہے یعنی منظور کو ملک اور تمام دنیا کی روشنی جیسی نعمتیں پہلے ہی مل چکی ہیں۔۔۔۔
ڈاکٹر منظور پشتیں کی تین بہنیں بھی ہیں۔۔۔۔
()2005 میں، عسکریت پسندوں کے خلاف برائے نام آپریشنوں اور کارروائیوں کی وجہ سے، ڈاکٹر منظور پشتین اور ان کے خاندان کو وزیرستان سے نکل کر ڈیرہ اسماعیل خان ، خیبر پختونخوا میں آئی ڈی پی کے پناہ گزین کیمپوں میں ایا۔یہ خاندان 2007 میں دوسری بار وزیرستان میں اپنے گھر سے نکلنے پرمجبور ہوا اور 2008 میں واپس آیا، لیکن 2008 میں آپریشن زلزلہ کی وجہ سے دوبارہ نکلا ۔2009 میں آپریشن راہ نجات کی وجہ سے وہ اور ان کا خاندان چوتھی بار وزیرستان سے نکلنے اور ھجرت کرنے پر مجبور ہوا۔ ، ۔۔۔چنانچہ وزیرستان میں قوم وملک کے دشمن پرویز مشرف کے فوجی آپریشن کے نتیجے میں گیارہ سالہ منظور پشتیں ماں باپ کے ہمراہ ڈیرہ اسمیعل خان آیا اور شہر کے باہرجھونپڑی میں رہائش اختیار کی۔ اس کے بعد اس کا خاندان چار دفعہ وزیرستان گیا اور چاروں دفعہ مختلف آپریشنز کی وجہ سے واپس ڈیرہ اسمیعل خان آتا رہا۔۔۔۔۔اں کا کہنا ہے کہ
سیکورٹی فورسز اور ،دھشت گردو کے ہاتھوں ہم نے جو نقصان،مشکلات سہے ہیں اور سہہ رہے ہیں یہ صرف میں جانتا ہوں کہ ہم نے کتنا نقصان اٹھایا ہے"۔۔۔۔۔
()منظور پشتین کا کہنا ہے کہ میں ائرفورس میں بھرتی ہوکر پائلٹ بننا چاہتا تھا، اس لیے میں آرمی پبلک سکول بنوں میں داخل ہوا۔۔۔ وہاں سے میٹرک کیا ۔۔۔لیکن میرا فکر اور نظریہ اس وقت تبدیل ہوا جب 2015 میں ہمارے علاقے کے ایک گاؤں "زیارچے" میں جٹ جہازوں نے بیماری کی اور وہاں ایک گھر کے چار خواتین اور پانچ بچے شھید ہوئے۔ لاشیں بلکل ٹکڑے ٹکڑے ہوئیں۔ہاتھ پاؤں نہیں مل رہے تھے۔ایک لاش کی ہاتھ کیچڑ میں پڑا تھا اور ساتھ انگھوٹھی تھی جس سے یہ پہچانا گیا۔۔۔۔۔۔ ایک لاش کی آنکھ کیچڑ میں ملی۔۔۔ اس طرح ہم اعضاء اکٹھا کرتے رہے۔۔۔۔ان حالت نے مجھ پر بڑا اثر کیا،۔۔۔تعلیم ملازمت اور خاص کر پائیلٹی سے نفرت ہوئی کہ مسلمان پائلٹ مسلمانوں پر بمباری کرکے شھید کرہا ہے۔۔۔۔۔چںانچہ اس ظلم وجبر کے وجہ سے سارا فکر اور نظریہ تبدیل ہوا،اور فیصلہ کیا کہ اس ظلم کے خلاف لوگوں کو متحد کرنا ہے اور لوگوں میں شعور بیدار کرنا ہے۔
() جب وہ اور اس کا خاندان 2016 میں وزیرستان واپس آیا تو انھوں نے دیکھا کہ ان کی کتابیں لوٹ لی گئی ہیں، ان کا گھر برباد ہو گیا ہے اور ان کی زمینوں پر بارودی سرنگیں بکھیر دی گئی ہیں۔ خاندان کے بہت سے لوگ شھید ہوئے ہیں تو۔۔۔پورے علاقے میں خون بہہ رہا،ابادی کھنڈرات میں تبدیل ہوئی ۔۔تو ڈاکٹر منظور پشتین ظلم کے خلاف میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا ۔
()مئی 2014 میں، گومل یونیورسٹی میں اپنی تعلیم کے دوران، ڈاکٹر منظور پشتین نے "محسود تحفظ موومنٹ" کی بنیاد رکھی، ایک سماجی تحریک جو بنیادی طور پر وزیرستان (خاص طور پر محسود کی زمین) سے بارودی سرنگیں ہٹانے کے لیے شروع ہوئي تھی۔ پشتون تحفظ موومنٹ (موومنٹ فار دی پروٹیکشن آف پشتون، پی ٹی ایم) نام نہاد جنگ،اپریشنوں اور دھشت گردوں کے خلاف مہم چلاتی ہے، ۔ان کا کہنا ہے کہ یہ خطہ 1980 کی دہائی سے، سوویت یونین اور ریاستہائے متحدہ کے درمیان سرد جنگ اور مغربی اور اسلام پسند قوتوں کے درمیان ہونے والے تنازعات کے بعد سے ایک جنگی علاقہ رہا ہے۔۔۔۔جبکہ اندرونی اور بیرونی استعمار اس جعلی جنگ میں پشتونوں کا خون کرتے ہیں مال عزت نیلامی کرنے کے ساتھ یہاں کے معدنیا ،وسائل،لکڑی،خوشک میوہ جات پر پر قبضہ کیے ہوئے ہیں
()پشتون لانگ مارچ:
ڈاکٹر منظور پشتین کے مطابق وہ اکثر بمباری، بارودی سرنگوں کے دھماکوں اور چیک پوسٹوں پر لوگوں کو ہراساں کرنے کے واقعات کے خلاف مظاہرے کرتے تھے، لیکن سب سے بڑا مظاہرہ اُنھوں نے ٹانک میں 15 نومبر 2016 کو کیا تھا جس میں سکیورٹی اداروں کے خلاف نعرے بازی کی گئی تھی۔...
()اسلام آباد میں فروری 2018 کے کامیاب دس روزہ احتجاج سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈاکٹر منظور پشتین نے اپنی تحریک کی سمت نہ صرف تبدیل کی اور اسے پشتون تحفظ تحریک کا بڑا کینوس دے دیا بلکہ اس کی تنظیم نو بھی شروع کر دی۔ وہ اس تحریک کا دائرہ قبائلی علاقوں سے بڑھا کر بلوچستان اور کراچی تک پھیلانا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ ان علاقوں میں عوامی جلسوں کا بھی سہارا لے رہے ہیں۔....بانی ارکان میں ڈاکٹر سید عالم محسود اور عبداللہ ننگیال بھی شامل ہیں ۔
()پی ٹی ایم منشور کے مطابق
کسی بھی سیاسی جماعت، نظریے، تحریک اور زندگی کے کسی بھی شعبے بشمول سرکاری، نیم سرکاری اور خود مختار اداروں سے منسلک افراد پشتون تحفظ تحریک کے رُکن بن سکتے ہیں۔۔۔۔ تحفظ تحریک ایک غیر پارلیمانی مزاحمتی تحریک ہوگی۔ کسی بھی قسم کے انتخابات میں تنظیم کے اجتماعی طور پر یا تنظیم میں شامل اراکین یا عہدے داروں کے حصہ لینے کے بارے میں فیصلہ مرکزی کمیٹی ہی کرے گی۔۔۔۔۔۔یہی وجہ ہے کہ کورکنٹی نے بعد میں امن کےلیے جدوجہد کرنے والی مزاحمتی تحریک پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) نے اپنے آٹھ اہم رہنما علی وزیر، محسن داوڑ، عبداللہ ننگیال، محترمہ عصمت شاہ جہاں، رادیش ٹونی، حامد شیرانی، عبد الواحد اور جمال ملیار کو 28 جولائی 2018 کے انتخابات میں حصہ لینے پر اپنے کور کمیٹی کی رکنیت سے فارغ کیا۔۔۔۔۔۔
()محسن داوڑ اور علی وزیر، وزیرستان سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 48 اور این اے 50 سے کامیاب ہوئے۔ یہ دونوں ان کے آبائی حلقے تھے۔ سنہ 2013 کے عام انتخابات میں بھی ان دونوں امیدواروں نے حصہ لیا لیکن ان کو کامیابی نہیں ملی تھی۔
محسن داوڑ نے 16496 ووٹ لے کر متحدہ مجلس عمل کے امیدوار مصباح الدین کو شکست دی۔ اسی حلقے سے کل 35 امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے تھے۔ اسی طرح علی وزیر(محمد علی) نے حلقہ این اے 50 سے 23530 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی جبکہ دوسرے آزاد امیدوار سید طارق گیلانی 8250 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔)
منشور میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں دیگر قومیتوں بلوچ، سندھی اور سرائیکیوں کے حقوق کے لیے بھی آواز بلند کی جائے.
()20 جنوری 2018 کو کراچی میں بلا وجہ نقیب اللہ محسود کو پولیس "کسی کی ایما" پر مارا تو اس کے بعد پی ٹی ایم کو عروج حاصل ہوا۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے نوٹ کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے حکام کے لیے پشتونوں پر ظلم ڈھانے کے لیے ایک ڈھونگ کا کام کیا ہے، جس میں محسود جیسے ہزاروں نوجوان قتل اور اغوا کیا جاتا ہے۔26 جنوری 2018 کو منظور پشتین اور 20 دوستوں نے ڈیرہ اسماعیل خان سے احتجاجی مارچ شروع کیا۔ راستے میں بہت سے لوگ مارچ میں شامل ہوئے اور یہ 28 جنوری 2018کو پشاور پہنچا۔ یکم فروری 2018کو اسلام آباد پہنچنے پر، پشتون تحفظ موومنٹ نے "آل پشتون قومی جرگہ " کے نام سے ایک دھرنا دیا۔ جرگے نے ایس پی راؤ انوار احمد خان کی سربراہی میں کراچی پولیس کے ہاتھوں وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ پشتون دکان دار نقیب اللہ محسود کے جعلی مقابلے میں ہلاکت کی مذمت کی۔ دیگر مطالبات کے علاوہ، جرگے نے حکومت سے نقیب اللہ محسود کے ساتھ ساتھ پولیس اور سیکیورٹی اداروں سے مقابلوں میں ماورائے عدالت قتل کیے جانے والے تمام پشتونوں کی عدالتی تحقیقات کرنے کی بھی اپیل کی۔ 13 مارچ 2018 کو ہیومن رائٹس واچ نے محسود کے قاتلوں کی تحقیقات کے مطالبے کی حمایت کی اور پاکستانی حکومت سے ڈاکٹر منظور پشتین اور دیگر احتجاجی رہنماؤں کے خلاف فوجداری مقدمات ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
اپریل 2018 کو خیبرپختونخوا کے مرکز پشاور میں پی ٹی ایم کا عظیم الشان اجتماع ہوا
()نظربندیاں
5 ستمبر 2017 کو، منظور پشتین اور ان کے والد، انسانی حقوق کے دو دیگر کارکنوں، جمال مالیار اور شاہ فیصل غازی کے ساتھ، پاکستانی سیکورٹی فورسز نے جنوبی وزیرستان کی تحصیل تیارزا میں باروند چیک پوسٹ سے حراست میں لے لیا۔ان پر بہت تشدد کیا گیا۔ ڈاکٹر منظور پشتین کو اس الزام کے تحت مارا پیٹا گیا کہ ان کی انسانی حقوق کی مہم نے سیکورٹی فورسز کے حوصلے کو نقصان پہنچایا۔ ڈاکٹر پشتین نے بعد میں کہا، "میں نے کہا، آپ معصوم بچوں کو مار کر اور پھر ہمیں دہشت گرد کہہ کر اپنا حوصلہ بڑھا رہے ہیں۔" ان کے حامیوں کی سوشل میڈیا مہم کے نتیجے میں، انھیں 6 ستمبر 2017 کو سیکورٹی فورسز نے رہا کر دیا تھا۔ ۔ 27 جنوری 2020 کو ڈاکٹر منظور پشتین کو پولیس نے پشاور سے بغاوت کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ ہیومن رائٹس واچ (HRW) نے پاکستانی حکام پر زور دیا کہ وہ ڈاکٹر منظور پشتین کو رہا کریں اور اس پر عائد الزامات کو ختم کریں، یہ کہتے ہوئے کہ "آزادی اظہار اور سیاسی مخالفت کو ٹھنڈا کرنے کے لیے فوجداری قوانین کا استعمال جمہوریت میں کوئی جگہ نہیں ہے۔"۔۔۔۔ 28 جنوری 2020 کو اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے باہر گرفتاری کے خلاف احتجاج میں سے ایک میں پی ٹی ایم کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ ، عوامی ورکرز پارٹی (اے ڈبلیو پی) کے عصمت شاہجہاں اور عمار رشید سمیت 26 دیگر مظاہرین کو گرفتار کیا گیا تھا۔ . عصمت شاہجہاں اور محسن داوڑ کو 29 جنوری 2020کو رہا کیا گیا تھا لیکن عمار رشید اور 22 دیگر کو بغاوت کے الزام میں جیل بھیج دیا گیا تھا۔ 17 فروری 2020 کو ان کے خلاف تمام الزامات ختم کر دیے گئے۔ 2 فروری 2020کو، ڈیرہ اسماعیل خان، کراچی اور فیصل آباد میں ڈاکٹر منظور پشتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ہونے والے دیگر مظاہروں سے کم از کم 43 کارکنوں کو مختصر وقت کے لیے گرفتار کیا گیا۔ ۔تقریباً ایک ماہ جیل میں رہنے کے بعد،ڈاکٹر منظور پشتین کو 25 فروری 2020 کو رہا کیا گیا اور پی ٹی ایم کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے ان کا استقبال کیا۔
28 مارچ 2021 کو پولیس نے ڈاکٹرمنظور پشتین کو کوہاٹ اور محسن داوڑ کو کرک میں گرفتار کر لیا تاکہ ان دونوں کو جانی خیل احتجاجی مارچ میں شامل ہونے اور اس کی قیادت کرنے کے لیے بنوں جانے سے روکا جا سکے۔ 29 مارچ 2022 کو مظاہرین اور خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد احتجاج ختم کر دیا گیا، جس کے بعد ڈاکٹر منظور پشتین اور داوڑ کو رہا کر دیا گیا۔۔
()()۔علی وزیر ایک برس(2021) سے کراچی کی جیل میں قید تھا اور ان کی رہائی کے لیے پی ٹی ایم نے کراچی میں صوبائی اسمبلی کے سامنے احتجاجی دھرنا دے رکھا تھا۔۔۔۔
علی وزیر کی والدہ خوازہ مینا نے 16 فروری 2022بدھ کی شب ان کی رہائی کے لیے دیے جانے والے دھرنے سے ٹیلیفونک خطاب میں کہا کہ ’علی وزیر جیل میں ہیں اور وہ اپنی قوم اور وطن کی خاطر جیل میں ہیں۔’....میں نے علی سے کہا کہ یہ طاقتور لوگ ہیں ان سے مت الجھو تو علی نے کہا کہ میں ان سے خوفزدہ نہیں ہوں۔ جس کے بعد پھر میں نے علی سے کہا کہ جاؤ اور ان کا راستہ روکو اور خیال رکھو کہ پھر پیچھے نہیں ہٹنا۔‘۔۔۔۔ ان کی ماں کا کہنا تھا کہ ان کی صحت کا مسئلہ ہے اس لیے وہ کراچی نہیں جا سکتی لیکن اگر وہ صحت مند ہوتیں تو اس دھرنے میں سب سے آگے ہوتیں۔۔۔۔۔علی وزیر بغاوت،اور 16 ایم پی او اور اس طرح دیگر فضول اور نام نہاد قوانین کے تحت خیبرپختونخوا ،پنجاب،سندھ اور بلوچستان میں وقتاً فوقتاً پکڑا جاتا ہے۔ایک مقدمہ میں بری ہوکر ریاست دوسرا بنا کر پکڑتے ہیں ،حتی کہ ان کے حوالے سے اسمبلی میں بات نہیں کی جاسکتی ،جب کوئی اس حوالے سے بات کرتا ہے،تو سپیکر مائک بند کرتا تھا۔ علی وزیر قومی اسمبلی کے رکن تھے لیکن قومی اسمبلی کے سپیکر نے کھبی ان کا پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کی ہمت نہیں کی۔
()() بعض لوگوں کہتا ہے کہ ڈاکٹر منظور پشتین کے تحریک کے پیچھے پاکستانی ایجنسیاں ہیں۔۔۔۔کیونکہ ابھی تک اتنے سخت مخالفت کے باوجود انہیں کیوں نہیں مروایا۔۔۔۔۔گویا ایک تو سیکورٹی والوں کا کام مروانا ہے اور دوسرے یہ کہ لوگ تب مانے گا کہ ڈاکٹر منظور پشتین کے مطالبات درست ہے،یا خود اٹھے ہے جب سیکورٹی والے انہیں قتل کرے۔۔۔یاللعجب۔۔۔۔بعض لوگوں کا کہتا ہے کہ یہ بیرونی دشمنوں کا ایجنٹ ہے۔۔۔۔ آخر ڈاکٹر منظور پشتین کیوں بیرونی آلہ کار بنے؟ پیسے کےلیے؟ وہ بیچارا تو ایک وقت کھانے کی طاقت نہیں رکتھا،۔ عہدے کےلیے ؟ ۔۔۔تو کیا جرنیل بنا یا ملک کے وزیراعظم ؟ بیرونی ایجنٹ کا ٹھپہ جماعت اسلامی جیسے اقامت دین کےلیے جدوجھد کرنے والی جماعت پر بھی لگا،۔۔۔حالانکہ یہاں پرویز مشرف کے طرح اسٹبلشمنٹ اور خود سیاست دانو کی اکثریت بیرونی آلہ کار ہے، ان لوگوں نے بیرونی آقاؤں سے ملکر پاکستان سے کباڑ خانہ بنایا۔۔۔۔ان لوگوں نے دشمن سے ملکر ملک کے خلاف کتابیں لکھیں ۔۔۔یہ کس منہ سے مظلوم اور امن چاہنے والے پر یہ الزام لگاتا ہے؟....بہرحال بیرونی ایجنٹ،اور ایجنسیوں کا ادمی،غدار کا ٹھپہ، مرتد واجب القتل جیسے فتوے،تبصرے اس جنگلستان کا تاریخی شیوہ ہے۔۔۔۔۔لیکن حقیقت یہ ہے ڈاکٹر منظور پشتین کی تحریک کے پیچھے پشتون ماؤں،بہنوں کے آنسو ہیں،۔۔۔۔ریاست کا جبر،ظلم ہے۔جان،مال عزت کی نیلامی ہے،ہزارون لوگوں کی لاپتگی،بوری بند لاشیں ہیں ۔۔۔۔گھربار اور زمینوں پر قبضہ ہے۔۔۔۔۔۔جن کے گھر سے 10/15 جنازے اٹھے ہو،جن کے تین چار بچے لاپتہ ہو،جن کا گھر بار تباہ ہوا ہو،جو خیموں میں زندگی پر مجبور ہو۔۔۔۔۔ایسے لوگ اگر اٹھے اپنے حق کی بات کرئے،اپنا مطالبہ بندوق اٹھانے کے بجائے دستور،قانون،رواج اور شریعت کے دائرے میں کرے ایسی جماعت کس کی ایجنٹ ہوسکتی ہے؟ اور کیوں کامیاب نہیں ہوگی؟
() ڈاکٹر منظور منظور قبائل کے ساڑھےآٹھ ہزار لاپتہ افراد کی فہرست ہاتھ میں لئے ریاست کی چوکھٹ پر سوالی کھڑا ہے۔اس نے کوئی سڑک بلاک نہیں کی۔ وہ صرف یہ کہہ رہا ہے کہ اگر ان ساڑھے آٹھ ہزار لوگوں میں سے ایک یا زیادہ لوگ یا تمام بھی دہشت گردوں کے ساتھ مل گئے ہیں تو انہیں جیل میں بند کیا جائے اور عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔ ہم حکمرانوں کو سڑکوں، ہسپتالوں اور سکولوں کا طعنہ دیتے ہیں۔ ڈاکٹر منظور منظور یہ سب کچھ نہیں مانگ رہا۔ وہ صرف اپنے گھر میں عزت مانگ رہا ہے۔ وہ روزگار نہیں مانگ رہا۔ وہ صاف پانی نہیں مانگ رہا۔ وہ کوئی بھی ایسی چیز نہیں مانگ رہا جس کی بولی لگتی ہو جو بازار سے ملتی ہو یا جس کے لئے آئی ایم ایف کے سامنے جھولی پھیلانی پڑے۔..اپنی عزت،جان مال اور اولاد کےلیے امن کا بھیک مانگ رہا ہے۔۔۔اس لیے غدار ہے،اندرونی ایجنسیوں کا بندہ ہے،بیرونی دشمنوں کا آلہ کار ہے۔۔۔۔یا للعجب
()پی ٹی ایم کے مطالبات
پشاور میں 8 اپریل، 2018ء کو ایک بڑے جلسے کا انعقادکیا تھا۔ جس میں 60 ہزار سے زائد لوگوں نے شرکت کی تھیں ۔ ان کی بنیادی مطالبات مندرجہ ذیل ہیں:
() امن کا قیام ۔۔۔سب سے پہلا اور آخری مطالبہ اور مدعا یہ ہے کہ پشتون علاقوں میں عموماً اور قبائلی علاقوں میں خصوصاً امن قائم کیا جائے۔۔۔۔(یہ پُرامن علاقہ تھا،لوگ دن رات بلاخوف آتے جاتے تھے ،کسی نامعلوم قتل کا رواج نہیں تھا اب یہ سب کچھ ایک پلاننگ کے تحت ہورہا ہے،پرامن علاقے میں بدامنی دھشت گردی پھیلائی جارہی ہے،۔۔ اس چیز سے ہاتھ کھینچا جائے مزید بدامنی نہ کی جائے کسی بھی دھشت گردی سے ہاتھ کھینچا جائے)۔
()جس طرح باقی پاکستان اس کے صوبوں شہروں میں قانون ہے وہی پشتون اور قبائل میں بھی ہونی چاہئے ...تمام صوبوں اور اس کے نسلوں اور اقوام کے ساتھ ایک جیسا سلوک ،رویہ اور مساوات ہونا چاہئے ،پشتونوں کے ساتھ سوتیلی ماں کی سلوک ختم کرنا چاہتے ۔
()جس طرح پنجاب یا سندھ کو اپنے وسائل پر اختیار حاصل ہے،ٹھیک یہی اختیار جو آئین پاکستان میں ذکر ہے، پشتونوں کو بھی حاصل ہونا چاہئے ۔
() سیکورٹی فورسز نے علاقے میں جو لینڈمائنز اور بم نصب کیے ہیں اس کے پھثنے سے روز بچے،عورت جوان بوڑھے شھید اور جانور مر رہے ہیں لہزا اس کی صفائی کی جائے۔
()وفاقی زیر انتظام قبائلی علاقوں میں انگریز دور کے جو ظالمانہ قوانین ہیں اس کا خاتمہ کیا جائے
()لاپتہ افراد کی رہائی (اگر انھوں نے کسی جرم کا ارتکاب کیا ہے، تو ان کو عدالت میں پیش کر کے سزا دینی چاہیے۔)۔
() ماورائے عدالت قتل کےلیے عدالتی کمیشن مقرر کرکے انکوائری کرنا،اور آئندہ ماورائے عدالت قتل سے پرہیز کرنا
()سیکورٹی چوکیوں پر عوام خاص کر خواتین کی بے عزتی کرتے ہیں ،ذلت آمیز رویہ روا رکھا ہے ۔۔۔۔اس سلوک کا تدار روک ہونا چاہئے
تلاشی اور آپریشنوں کی بنیاد پر پشتون خاندانوں کو ہراساں کیاجاتا ہے،گھر ودیوار اور ستر کی پامالی روک دی جائے۔
() بلا ضرورت چوکیان،چیک پوسٹیں اور لوگوں کی زمینوں پر بنائے گئے چھاؤنیاں ختم کرنا
()وفاقی انتظامیہ قبائلی علاقوں میں زمینوں پر قبضے کیے گئے انہیں اصل مالکوں کو واپس کرنا۔
() گھروں ،حجروں، سکولوں ،ہسپتالوں اور دیگر قومی مکان اور مقامات پر سیکورٹی فورسز نے جو قبضہ جمالیا ہے۔۔۔۔انہیں یہاں سے اٹھایا جائے۔۔۔۔
()تمام سیاسی قیدیوں اور بے گناہوں کی رہائی کی جائے۔
() علاقے سے جو معدنیات ،قیمتی لکڑی،خوشک میوہ جات کے سمگلنگ کا روک تھام ۔
() گھروں ،دکانون اور دیگر مکانات کےلیے جس معاوضے کا اعلان کیا گیا وہ دینا
()جو لوگ باہر خیموں ،کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہے انہی دو بارہ آباد کرنا۔۔۔۔۔
() ریاست دوھری اور گوناگوں کی پالیسی چھوڑ کر دھشت گردی اور امن کے قیام کےلیے یکسو اور عوام کی مفاد میں پالیسی اپنائے
()()پی ٹی ایم کا کہنا ہے کہ ریاست کےآئین اور قانون نے جو حقوق اور تحفظ دیا ہے وہ ہمیں دیا جائے۔۔۔۔پشتون سے جو ناروا سلوک روا رکھا گیا ہے اس کا فیصلہ شریعت محمدی ،یا آئین ودستور پاکستان یا قومی جرگے ۔۔۔۔۔ریاست کی جو مرضی اسی کی مطابق فیصلہ کیا جائے۔۔۔۔لیکن ریاست اور اس کے کچھ ادارے بیرونی آقاؤں کی غلامی اور ذاتی مفادات و خواہشات کے وجہ سے تیار نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ان مطالبات کو جائز ،دستوری اور قانونی ماننے کے باوجود انہیں بیرونی ایجنٹ قرار دیا گیا، دشمن سے فنڈ آنے کا الزام لگا، حتی ایک پریس کانفرنس میں کہا گیا Your time is up۔۔۔اپ کا وقت پورہ ہے۔۔۔۔۔۔اور عملاً اس پر کئ قاتلانہ حملے ہوئے،کیسز بنے،جیل کے اندر کیا۔۔۔۔لیکن کسی مطالبے کو ابھی تک نہیں ماناگیا۔
() یہ کوئی باقاعدہ تنظیم نہیں ہے،سیاسی قوت نہیں ہے، دوسرے طرف سربراہ کم عمر نوجوان ہے، ان کے ساتھیوں میں بھی کافی کمیاں کوتاہیاں ہوگیں،اس لیے کئ باتوں اور معاملات میں کمزوریاں ہوں گیں۔۔۔۔۔لیکن یہ مظلوم کی آواز ہے،رونا ہے،فریاد ہے،اہ وبکا ہے۔۔۔اس لیے ان لوگوں سے دیگر توقعات وابستہ کرنا درست نہیں ہے۔
()ویسے تو ڈاکٹر منظور پشتین پی ٹی ایم کے سربراہ ہے،جنہیں پی ٹی ایم کے کارکنان "مشر" کہتے ہیں ۔۔۔۔لیکن ڈاکٹر منظور پشتیں مروجہ لیڈر اور قائد نہیں ہے۔۔۔۔ڈاکٹر منظور پشتیں پشتون قوم کا مربی ہے،استاذ ہے۔۔۔۔۔ڈاکٹر منظور پشتیں نے پشتون قوم کو صرف 5/6 سال میں وہ کچھ دیا جو پشتون حکمران احمد شاہ ابدالی ،شیرشاہ سوری اور ابراہیم لودھی وغیرہ نے سینکڑوں سال میں نہیں دیا۔۔۔۔۔۔کسی اور پشتون استاذ،شاعر،سیاست اور علماء نے نہیں دیا۔۔۔۔ڈاکٹر منظور پشتین ،پشتون کے ہاتھ میں تلوار کے ساتھ قلم بھی دینا چاہتاہے، جھگڑنے کے بجائے ڈپلومیسی ،حکمت عملی دے رہاہے۔شعور،فکر اور دانش دے رہا ہے،۔۔ پشتون قوم کو باقی ترقی یافتہ اقوام کے صف میں کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ظلم جبر اور وقت کے فرعونوں کے سامنے کھڑے ہونے کا جرائت دے رہا ہے،متحد کرنا چاہتا ہے آئین وقانون ،جرگہ رسم ورواج کے ذریعے مسائل حل کرنے کا سلیقہ سیکھا رہا۔۔۔۔۔مظلوم کےلیے لڑنا بتارہاہے۔۔۔۔جہاد اور اجتہاد سے لیس کرنا چاہتا ہے۔ دلیل سے بات کرنے کا سلیقہ بتا رہا ہے،سب سے بڑھ کر قوم میں شعور لایا اور بیدار کیا۔۔۔۔پہلے بار قوم وملت کو اصل دشمن کا پتہ چلا ۔کوئی مانے یا نہ لیکن یہ نوجوان بلامبالغہ ہیرو ہے۔
()پی ٹی ایم نے گزشتہ پانچ ماہ سےایک مہم چلائی اور ضلع خیبر میں پاکستان کے تمام پشتون برداری کو ایک جرگہ کےلیے 11اکتوبر 2024 کومدعو کیا۔اس جرگے میں رسرچ اور اعداد وشمار کے مطابق دھشت گردی کی جنگ میں پشتونوں کا جیتنا بھی نقصان ہوا ہے سب کا ریکارڈ پیش کیا جائے گا اس کے علاؤہ تین دن پشتون بزرگ باہم گفت وشنید،مشاورت سے پشتونوں کی حقوق ،ان کے ساتھ نا انصافی اور اس کے تدارک کےلیے لائحہ عمل طے کیا جائے۔۔۔۔۔سوشل میڈیا نے زبردست کوریج دیا۔۔۔۔ریاست پر اس کا اتنا پرشر بڑھا کہ جرگے کے انتظامات پر فائرنگ اور شیلنگ کیا گیا ،سامان لوٹ لیا گیا۔۔۔اور 7 اکتوبر 2024 کو پی ٹی ایم کو کالعدم قرار دیا گیا اور 9 اکتوبر کو پاکستان میں عموماً اور خیبرپختونخوا میں خصوصاً جہاں قافلے جرگے آرہے تھے اسے روک دیا گیا اور ریگی کلمہ خیبر میں جرگے کے انتظامات کرنے والے ہزاروں لوگ پر فائرنگ کیا گیا جس میں کئ لوگ شھید اور زخمی ہوئے۔۔۔۔حقیقت یہ ہے کہ ریاست و حکومت کے یہ عمل اور اقدامات اسلام،دستور پاکستان،قانون اور بین الاقوامی قانون و رواج کے بلکل خلاف ہے۔۔۔۔پابندی،زور جبر،گولی،گالی سے معاملات مذید بگڑے گا۔اس لیے اس سے اور سازشوں ،پراکسی وارز،اپریشنز ،وغیرہ سے مزید پرہیز ہونا چاہئے ۔
۔(ڈاکٹر زاھد شاہ)
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.