Skip to main content

Society Girl Book Review In Urdu.

 Society Girl Book Review In Urdu. 


ڈان اخبار کی ویب سائٹ پر اس کتاب کا ریویو دیکھا اور کل خرید لی ۔ ۔ کتاب بہت دلچسپ ہے اور مصطفیٰ زیدی اپنے وقت کے مشہور بیورو کریٹ اور شاعر کے مبینہ قتل يا خود کشی کے بارے میں تحقیق پر مشتمل ہے ۔

عارفہ نور کی تحریر آپ کی نظر ۔۔۔


مصطفیٰ زیدی کی پُراسرار موت کا معما جو نصف صدی گزر جانے کے باوجود حل نہ ہوسکا

عارفہ نور شائع January 7, 2025


اخبارات ہوں یا ٹیلی ویژن، جرائم سے متعلق خبروں کو صفِ اول کی ہیڈلائنز یا اخبارات کے صفحہ اول پر جگہ نہیں دی جاتی جبکہ جرائم کے واقعات کی تفصیل سے رپورٹنگ یا کوریج بھی نہیں ہوتی۔


لیکن حال ہی میں دو خاتون صحافیوں نے 50 سال پرانے معمے کی تحقیقات کرنے کا فیصلہ کیا۔ طوبیٰ مسعود اور صبا امتیاز نے ایک پوڈکاسٹ سے آغاز کیا اور کراچی کے ایک پرانے مقدمے پر بات کی۔ بعد ازاں دونوں نے اسے ایک کتاب کی شکل میں شائع کیا ہے جو میں نے ایک ہی دن میں پڑھ ڈالی۔


’سوسائٹی گرل‘ نامی یہ کتاب، سقوطِ ڈھاکا سے قبل متحدہ پاکستان میں ایک سرکاری ملازم اور شاعر مصطفیٰ زیدی کی پُراسرار موت کے گرد گھومتی ہے۔ 40 سالہ مصطفیٰ زیدی اپنے گھر میں مردہ حالت میں پائے گئے تھے جبکہ ایک شادی شدہ خاتون اسی گھر میں بےہوشی کی حالت میں پائی گئی تھیں۔ بعدازاں اس خاتون پر قتل کا الزام عائد کیا گیا لیکن وہ بری ہوگئیں۔ لیکن مصطفیٰ زیدی کی لاش ملنے سے لے کر مشتبہ خاتون کی بریت تک، کتاب کے دونوں مصنفین کے مطابق یہ مقدمہ انگریزی و اردو اخبارات کی شہ سرخیوں میں تھا جبکہ مقبول اخبارات سے لے کر شام کے سنسنی سے بھرپور اخبارات تک، سب میں اس کیس کی بازگشت تھی۔


مصنفین نے معمے کو حل کرنے کی کوشش کی ہے جو 50 سال سے حل نہیں ہوسکا اور بلاشبہ یہ ایک مشکل کام ہے۔ جو شواہد ریکارڈ میں موجود ہیں، ان کی مدد سے انہوں نے واقعے کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے لیکن حقیقی زندگی کی طرح اس کتاب میں بھی مصطفیٰ زیدی کا معما پُراسرار ہے۔ دونوں مصنفین نے اپنے طور پر کڑیاں جوڑنے کی کوشش کی ہے اور اس کہانی کو اپنے نظریے سے بیان کیا ہے۔ تاہم انہوں نے یہ منفرد کام کیا ہے کہ وہ اس کتاب میں کراچی کے سماجی اور ثقافتی ماحول پر تبصرہ کرتی ہیں جہاں مصطفیٰ زیدی اور شہناز گل نامی نوجوان خاتون رہتے تھے جبکہ انہوں نے اس وقت کی وسیع تر سیاسی صورت حال پر بھی تبصرہ کیا ہے۔


مصطفیٰ زیدی کی ابتدائی زندگی اور خودکشی کی متواتر کوششوں کے تناظر میں دونوں مصنفین نے ذہنی صحت اور اس سے لاپروائی سے متعلق بھی گفتگو کی ہے۔ شہناز گل کی اپنے شوہر کے ہمراہ کراچی منتقلی اور ان کی سماجی زندگیوں کی وجہ سے مصنفین کو کراچی کی اشرافیہ پر تبصرہ کرنے کا موقع میسر آیا جن کے پاس کلبز کی ممبرشپ ہوتی تھیں جبکہ ان کی میٹرو پول جیسے ہوٹلز میں نائٹ لائف ہوتی تھی۔


اس مقدمے کے ٹرائل نے خود اس بات پر بحث چھیڑ دی کہ کس طرح میڈیا نے اس مقدمے میں نوجوان خاتون کا استحصال کیا حالانکہ اس بات کے شواہد انتہائی کم تھے جو مصطفیٰ زیدی کی موت کو قتل ثابت کرتے۔


ان دونوں صحافیوں نے بتایا ہے کہ کس طرح اخبارات نے اس پورے واقعے کو ایک ’گناہ گار‘ عورت پر مرکوز رکھا۔ شادی شدہ ہونے کے باوجود مصطفیٰ زیدی اور شہناز گل کے درمیان افیئر تھا۔ ایک ہی گھر میں مصطفیٰ زیدی مردہ جبکہ شہناز گل بے ہوشی کی عجیب صورت حال میں پائی گئیں۔ حالانکہ سب جانتے تھے کہ مصطفیٰ زیدی نے شہناز کے ساتھ تعلقات رکھ کر اپنی بیوی کو دھوکا دیا لیکن اس کے باوجود پریس اور سوسائٹی نے بڑے پیمانے پر خاتون کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا۔

یہ مقدمہ اتنی باریک اور سنسنی خیز تفصیلات سے بھرپور ہے کہ مصنفین نے بتایا ہے کہ کس طرح اس وقت مشرقی پاکستان میں رونما ہونے والے واقعات سے زیادہ عوام کی توجہ اس مقدمے کی پیش رفت پر تھی۔ ایک موقع پر تو ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اپنی ایک تقریر میں اس کیس کو سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا اور وعدہ کیا کہ ملزمان کو ملک سے فرار کی اجازت نہیں دی جائے گی۔


لیکن کتاب کے اختتام تک نہ صرف اس معاشرے کی خواتین کے ساتھ غیرمساوی سلوک پر افسوس ہوتا ہے بلکہ اس کے اثرات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس کتاب میں ایک دشوار شخصیت کے مالک مرد کی خاکہ نگاری کی گئی ہے جو ذہین، باصلاحیت، دشوار اور شاید ٹاکسک بھی تھا۔ ان کے دوست اور رشتہ داروں نے ان کے بارے میں بات کی ہے جبکہ ان کی لکھی شاعری بھی مصطفیٰ زیدی کے خیالات کو ظاہر کرتی ہے۔


ان کے مقابل ایک خاتون ہیں جنہوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ان کے خاندان نے مصنفین سے بات کرنے سے انکار کردیا جبکہ مقدمے کے ٹرائل کے دوران شہناز گل نے صرف ایک ’انٹرویو‘ دیا تھا۔ اس کے علاوہ شاید ایک یا دو بیانات ہیں جو انہوں نے تحقیقات کے دوران پولیس کو دیے تھے۔ شہناز کی سہیلیاں اور وہ خواتین جو ان کے ساتھ سوسائٹی ایونٹس میں اٹھتی بیٹھتی تھیں یا وہ خواتین جنہوں نے کورٹ کی کارروائی میں انہیں دیکھا، سب نے ان کی ظاہری خوبصورتی پر بات کرتے ہوئے ان کی دانشمندی پر تنقید کی۔ حتیٰ کہ ان میں سے ایک نے انہیں ’پینڈو‘ بھی قرار دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے کہانی کے اس کردار کی کوئی شخصیت نہیں، کوئی خیالات نہیں، کوئی ضروریات یا خواہشات نہیں۔


50 سالہ قبل سامنے آنے والے ایک اسکینڈل کی زد میں آنے کے بعد خاتون کے پاس خاموش رہنے سے زیادہ بہتر راستہ کوئی نہیں ہوگا۔ لیکن یہ حقیقت کہ جو لوگ انہیں جانتے تھے وہ بھی ان کی شخصیت کے بارے میں تفہیم اور ان کے کردار سے متعلق کوئی حقیقی خاکہ پیش نہیں کرسکے جوکہ کتاب کے اختتام پر میرے لیے مایوس کُن تھا۔


ہماری سوچ سے زیادہ عورت کو کئی طریقوں سے خاموش کرادیا گیا جبکہ مرد کو نہیں حتیٰ کہ اس کے مرنے کے بعد بھی نہیں۔




Comments