دنیا کا خطرناک ترین دریا: دریائے سندھ اور ممکنہ تیسری عالمی جنگ
پس منظر اور تعارف
برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلیگراف (لندن) میں حال ہی میں ایک مضمون شائع ہوا جس میں دریائے سندھ کو دنیا کا خطرناک ترین دریا قرار دیتے ہوئے خبردار کیا گیا کہ یہ دریا مستقبل میں تیسری عالمی جنگ کا سبب بن سکتا ہے ۔ یہ مضمون ڈیلی ٹیلیگراف کے سینئر خارجہ امور کے نامہ نگار رولینڈ اولیفنٹ نے تحریر کیا اور 25 اپریل 2025 کو شائع ہوا ۔ اس میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کے تاریخی معاہدے میں پیدا ہونے والی حالیہ کشیدگی کا جائزہ لیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ کس طرح دریائے سندھ پر تنازعہ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔
حالیہ تناظر میں، بھارت نے ایک مہلک دہشتگرد حملے کے بعد 60 سالہ پرانے سندھ طاس آبی معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس اقدام نے دو ایٹمی ہمسایہ ممالک، بھارت اور پاکستان، کے درمیان شدید تناؤ کو جنم دیا ہے ۔ پاکستان نے رد عمل میں خبردار کیا ہے کہ بھارت کی جانب سے دریائے سندھ کا پانی روکنے یا رخ موڑنے کی کسی بھی کوشش کو ”جنگ کے اقدام“ سے تعبیر کیا جائے گا اور اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا ۔ اس صورتِ حال نے عالمی سطح پر تشویش پیدا کر دی ہے کہ کہیں پانی کے اس جھگڑے کی وجہ سے خطے میں بڑا فوجی تصادم نہ چھڑ جائے۔
مضمون کا خلاصہ اور اہم نکات
ڈیلی ٹیلیگراف کے اس مضمون میں درج ذیل اہم نکات اور مشاہدات پیش کیے گئے ہیں:
• معاہدہ سندھ طاس کی معطلی – مضمون کے مطابق بھارت کی جانب سے پاکستان کے ساتھ کلیدی آبی معاہدے کی معطلی نے دونوں ممالک کے تعلقات کو نازک موڑ پر پہنچا دیا ہے۔ یہ معاہدہ 1960 میں عالمی بینک کی نگرانی میں طے پایا تھا اور تب سے دونوں ممالک کے درمیان آبی تقسیم کا ضامن رہا ہے ۔ بھارت کے اس قدم نے جنوبی ایشیا کی دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان خطرناک کشیدگی کو جنم دیا ہے ۔
• دریائے سندھ کی اہمیت – مضمون میں بتایا گیا ہے کہ دریائے سندھ پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا درجہ رکھتا ہے۔ پاکستان ایک زیریں حصے (ڈاؤن اسٹریم) کا ملک ہے اور اس کی زرعی پیداوار اور قومی سلامتی کا دارومدار بڑی حد تک دریائے سندھ کے پانی پر ہے ۔ دوسری طرف بھارت بالائی حصہ (اپ اسٹریم) کا مالک ہے اور تکنیکی طور پر دریاؤں کا کنٹرول رکھتا ہے۔ مضمون میں ایک تجزیہ کار کے حوالے سے کہا گیا کہ ”بھارت چونکہ بالائی ملک ہے، اس لیے اس معاہدے کی اہمیت اس کے لیے اتنی بڑی نہیں“ جتنی پاکستان کے لیے ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ بھارتی حکومت نے اپنی حکمتِ عملی میں اس معاہدے کو معطل کرنے سے دریغ نہیں کیا۔
• پاکستان کا شدید رد عمل – مضمون کے مطابق پاکستان نے بھارت کے اقدام پر سخت ردعمل دیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ بھارت کی جانب سے پانی روکنے کو قومی وجود کے لیے خطرہ سمجھا جائے گا۔ سرکاری بیان میں واضح طور پر کہا گیا کہ پاکستان کے حصے کا پانی روکنا ”جنگ کا عمل تصور ہوگا اور اس کا جواب پوری قومی طاقت سے دیا جائے گا“ ۔ اس کے علاوہ پاکستان نے سفارتی سطح پر بھی سخت اقدامات کیے ہیں، جن میں بھارتی سفارت کاروں کی ملک بدری، فضائی حدود کی بندش اور دیگر دوطرفہ معاہدوں (جیسا کہ شملہ معاہدہ) سے دستبرداری شامل ہے  ۔
• عالمی تشویش اور ممکنہ جنگ کا خطرہ – ٹیلیگراف کے مضمون میں زور دیا گیا ہے کہ اس صورتحال نے عالمی برادری کو فکر مند کر دیا ہے۔ دونوں ممالک ماضی میں تین جنگیں لڑ چکے ہیں اور کشمیر جیسے تنازعات سے جڑے ہوئے ہیں۔ اب پانی جیسے بنیادی وسیلے پر کشمکش نے حالات کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے جہاں مبصرین تیسری عالمی جنگ کے امکان کو خارج از امکان قرار نہیں دے رہے۔ کیونکہ اگر بھارت اور پاکستان کے درمیان بڑی جنگ چھڑتی ہے تو یہ نہ صرف جوہری تباہی کا پیش خیمہ ہوگی بلکہ ممکن ہے کہ دیگر عالمی طاقتیں بھی بالواسطہ طور پر اس میں کھنچ جائیں۔
• مستقبل کے خطرات اور سفارشات – مضمون میں ماہرین کی آرا شامل ہیں کہ پانی کے مسائل پر ایسے تنازعات مستقبل میں بڑھ سکتے ہیں، خصوصاً آب و ہوا کی تبدیلی (کلائمیٹ چینج) کے سبب پانی کی قلت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق جنوبی ایشیا میں وسائل (خصوصاً پانی) پر مبنی تنازعات کا خطرہ وقت کے ساتھ بڑھ رہا ہے اور اسے کم کرنے کے لیے دونوں ممالک کو چاہیے کہ سندھ طاس معاہدے کو سیاسی دباؤ سے آزاد رکھتے ہوئے مذاکرات اور معاہدے کے طے شدہ طریقہ کار کے ذریعے مسائل حل کریں ۔
دریائے سندھ کو دنیا کا خطرناک ترین دریا کیوں کہا گیا؟
اس مضمون میں دریائے سندھ کو “دنیا کا سب سے خطرناک دریا” قرار دینے کی وجہ وہ مخصوص صورتحال ہے جو اس سے جڑی ہوئی ہے۔ اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:
• دو جوہری طاقتوں کا مشترکہ دریا: دریائے سندھ بھارت اور پاکستان دونوں سے ہو کر گزرتا ہے اور دونوں اسے اپنی ضرورت کے لیے انتہائی اہم سمجھتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں، اس لیے ان کے درمیان کسی بھی قسم کا تنازع عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ بن سکتا ہے ۔ دریائے سندھ پر تنازعہ کوئی معمولی آبی تنازعہ نہیں بلکہ دو جوہری حریفوں کے درمیان ہے، اس لیے اسے دنیا کے خطرناک ترین دریا سے تعبیر کیا گیا ہے۔
• سندھ طاس معاہدے کا خطرے میں پڑنا: 1960ء میں ہونے والا سندھ طاس معاہدہ ایک تاریخی معاہدہ تھا جس نے گذشتہ چھ دہائیوں سے دریائے سندھ کے پانی کو منصفانہ طریقے سے تقسیم کر کے امن قائم رکھا ۔ اسے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کا اہم ذریعہ بھی سمجھا جاتا رہا ہے ۔ اب پہلی مرتبہ بھارت نے اس معاہدے کو معطل کر کے ایک خطرناک مثال قائم کر دی ہے۔ معاہدے کا ٹوٹنا اس لیے خطرناک ہے کہ یہ واحد فریم ورک تھا جو پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بناتا تھا۔ معاہدے کے بغیر پانی کی رسہ کشی تیزی سے دشمنی میں تبدیل ہوسکتی ہے۔
• پاکستان کی حیاتیاتی ضرورت اور خطرہ: پاکستان تقریباً مکمل طور پر دریائے سندھ کے نظامِ آب پر انحصار کرتا ہے۔ اس دریا کے پانی سے پاکستان کے کروڑوں لوگوں کو پانی اور زرعی زمینوں کو سیرابی ملتی ہے ۔ اسے پاکستان کی شہ رگ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ پاکستان پہلے ہی پانی کی شدید قلت والے ممالک میں شمار ہوتا ہے اور فی کس پانی کی دستیابی خطرناک حد تک کم ہو چکی ہے۔ ان حالات میں دریائے سندھ کا پانی روکنا پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی قیادت اس کو اپنی قومی سلامتی کا معاملہ قرار دے رہی ہے ۔
• بھارت کی بالادستی اور دباؤ کا حربہ: دریائے سندھ کے زیادہ تر منبع اور بہاؤ پر بھارت کو جغرافیائی برتری حاصل ہے کیونکہ یہ دریا بھارت کے زیرانتظام علاقوں (بشمول مقبوضہ کشمیر) سے گزرتا ہوا پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ بطور بالائی ملک، بھارت تکنیکی طور پر پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے (مثلاً ڈیم بنا کر) اگرچہ فوری طور پر تمام پانی روکنا عملی طور پر ممکن نہیں ۔ بھارت نے ماضی میں بھی عندیہ دیا ہے کہ “خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے” – یعنی دہشتگردی جاری رہی تو پانی روکنے جیسے اقدامات خارج از امکان نہیں ۔ موجودہ بھارتی حکومت کا معاہدہ معطل کرنا اسی دباؤ کی حکمت عملی کا حصہ سمجھا جا رہا ہے۔ بھارت کی نظر میں وہ اس معاہدے کا پابند رہ کر یکطرفہ نقصان اٹھا رہا تھا، جیسا کہ ایک تبصرہ نگار نے کہا “بھارت کے لیے اس معاہدے کی اہمیت زیادہ نہیں” کیونکہ فائدہ زیادہ تر پاکستان کو ہے ۔ یہ رویہ اس دریا کو اور بھی خطرناک بنا دیتا ہے کیونکہ طاقت کا توازن ایک جانب جھکا ہوا ہے۔
• کشمیر اور علاقائی تنازع: دریائے سندھ کا راستہ متنازعہ خطہ کشمیر سے ہو کر گزرتا ہے جو خود ایک فلش پوائنٹ (شعلہ زن نقطہ) ہے۔ کشمیر پر بھارت اور پاکستان پہلے ہی تین جنگیں لڑ چکے ہیں اور وہاں مسلسل کشیدگی رہتی ہے ۔ دریائے سندھ کا پانی بھی کشمیر میں بنتے ڈیموں اور نہروں سے وابستہ ہے جس پر دونوں ملک اختلاف رکھتے ہیں۔ یوں دریائے سندھ ایک نہیں بلکہ دو بڑے تنازعات (کشمیر اور پانی) کا سنگم ہے، جس سے اس کی حساسیت اور خطرناکی دگنی ہو جاتی ہے۔
ان تمام عوامل کی بنا پر مضمون میں دریائے سندھ کو دنیا کا خطرناک ترین دریا کہا گیا ہے کیونکہ یہ واحد دریا ہے جو بیک وقت دو دشمن ایٹمی ممالک کی بقا، سلامتی اور عزتِ نفس سے جڑا ہوا ہے۔
یہ دریا تیسری عالمی جنگ کا سبب کیسے بن سکتا ہے؟
ٹیلیگراف کے مضمون کا مرکزی انتباہ یہ ہے کہ دریائے سندھ پر بڑھتا ہوا تنازع ایک بڑے عالمی تصادم، حتیٰ کہ تیسری عالمی جنگ، کو جنم دے سکتا ہے۔ یہ دعویٰ درج ذیل دلائل کی بنیاد پر ہے:
• بھارت-پاکستان جنگ کا امکان: پانی کے معاملے پر حالیہ سخت اقدامات نے عملی طور پر بھارت اور پاکستان کو جنگ کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ دونوں اطراف سے سخت بیان بازی اور اقدامات سامنے آ رہے ہیں – بھارت نے جہاں معاہدہ توڑ کر دباؤ بڑھایا ہے وہیں پاکستان نے اسے جنگ کا جواز قرار دینے کا عندیہ دیا ہے ۔ اگر دونوں ممالک کے درمیان فوجی جھڑپ ہوتی ہے تو دونوں کی عسکری صلاحیت، ہتھیاروں کی نوعیت اور ماضی کی دشمنی کو دیکھتے ہوئے یہ تصادم تیزی سے مکمل جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
• جوہری تصادم کا خطرہ: بھارت اور پاکستان کے درمیان روایتی جنگ بھی بہت جلد جوہری جنگ میں تبدیل ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ دونوں ممالک کی فوجی حکمت عملی میں یہ بات شامل ہے کہ ملک کے وجود کو خطرہ ہوا تو آخری حد تک جائیں گے۔ پانی جیسا اہم مسئلہ پاکستان کے لیے وجودی خطرہ ہے اور بھارت کے لیے بھی قومی وقار کا سوال بن سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر جنگ چھڑ جائے اور ایک فریق کو شکست کا اندیشہ ہو تو جوہری ہتھیاروں کا استعمال خارج از امکان نہیں۔ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان ایٹمی جنگ خود دنیا کے لیے تباہ کن ہوگی اور اسے آسانی سے ایک عالمی بحران میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگے گی۔
• عالمی طاقتوں کی مداخلت: جنوبی ایشیا میں جنگ کی صورت میں بڑی عالمی طاقتیں بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ ملوث ہو سکتی ہیں۔ امریکہ، چین، روس اور یورپی ممالک کے بھارت اور پاکستان سے مختلف نوعیت کے تعلقات ہیں۔ مثال کے طور پر، امریکہ ماضی میں کشمیر اور دیگر معاملات پر ثالثی یا دباؤ ڈالتا رہا ہے اور حالیہ کشیدگی میں بھی امریکی صدر نے بھارت کی حمایت میں بیان دیا ۔ چین کا بھی خطے میں اثر و رسوخ ہے (خصوصاً وہ پاکستان کا قریب ترین اتحادی ہے اور خود دریائے سندھ کا بالائی حصہ چین کے قبضے والے تبت سے نکلتا ہے)۔ اگر بھارت پاکستان جنگ چھڑتی ہے تو ممکن ہے کہ عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے تحت کسی نہ کسی طور شریک ہو جائیں گی، یوں یہ تنازعہ علاقائی حدود سے نکل کر عالمی رخ اختیار کر سکتا ہے۔
• آبی وسائل پر عالمی بحران کا امکان: دنیا بھر میں آبی وسائل پر تنازعات بڑھ رہے ہیں اور ماہرین کئی دہائیوں سے خبردار کر رہے ہیں کہ اگلی جنگیں پانی پر ہوں گی۔ دریائے سندھ کا تنازعہ اس کی عملی مثال بن کر سامنے آ رہا ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ تنازعہ عالمی جنگ کی صورت اختیار کرتا ہے تو یہ دنیا کے لیے ایک سنگین مثال ہوگا کہ کس طرح پانی جیسا بنیادی وسائل عالمی امن کو تہہ و بالا کر سکتا ہے۔ یوں دیگر خطوں (مثلاً مشرق وسطیٰ میں دریائے فرات یا افریقہ میں دریائے نیل کے تنازعات) پر بھی اس کے اثرات پڑ سکتے ہیں اور عالمی محاذ آرائی کی فضا بن سکتی ہے۔
• اقتصادی اور انسانی بحران کی بڑھوتری: اگر جنگ چھڑی تو صرف بھارت اور پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیا کی معیشت اور کروڑوں انسان متاثر ہوں گے۔ پاکستان کی زرعی پیداوار اور خوراک کا بڑا حصہ دریائے سندھ پر منحصر ہے – جنگ کی صورت میں نہ صرف پانی بند ہونے سے قحط جیسی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے بلکہ جنگی تباہی الگ سے بڑے پیمانے پر مہاجرین اور انسانی المیے کو جنم دے گی۔ اس طرح کا عدم استحکام پڑوسی ممالک افغانستان، ایران، چین تک پھیل سکتا ہے۔ عالمی اداروں کو مداخلت کرنا پڑ سکتی ہے اور ممکن ہے اقوام متحدہ یا بڑی طاقتیں براہ راست امن قائم کرنے کے لیے آ جائیں، جو ایک وسیع تر جنگ یا عالمی صف بندی (alignment) کا روپ دھار سکتا ہے۔
مجموعی طور پر، تیسری عالمی جنگ کا خدشہ ظاہر کرنے کا مقصد اس معاملے کی سنگینی کو نمایاں کرنا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ دریائے سندھ کا تنازعہ محض دو ملکوں کا معاملہ نہیں رہا بلکہ اس کے اثرات دور رس اور تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ اگر فوری طور پر سفارتی راستے سے اس تنازع کو حل نہ کیا گیا تو پانی جیسا معاملہ دنیا کو ایک نئے عالمی تصادم کی طرف دھکیل سکتا ہے۔
تاریخی، جغرافیائی و سیاسی پس منظر
دریائے سندھ دنیا کے طویل ترین اور عظیم دریاؤں میں سے ایک ہے جس کی مجموعی لمبائی تقریباً 3,000 کلومیٹر ہے۔ یہ دریا تبت (چین) کے پہاڑوں سے نکل کر بھارت کے شمالی علاقے (جموں و کشمیر/لداخ) سے گزرتا ہے اور پھر پاکستان میں داخل ہو کر پورے ملک کو سیراب کرتا ہوا بحیرہ عرب میں گرتا ہے۔ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریا (جہلم، چناب، راوی، بیاس، ستلج) برصغیر کی تہذیبوں کی بنیاد رہے ہیں اور آج بھی کروڑوں لوگوں کے لیے زرعی، صنعتی اور پینے کے پانی کا اہم ترین ذریعہ ہیں۔
برصغیر کی تقسیم (1947) کے بعد سے ہی پانی کی تقسیم ایک بڑا تنازع تھا کیونکہ پنجاب اور سندھ کی زرخیز زمینیں پاکستان کے حصے میں آئیں لیکن کئی دریا بھارت کی حدود سے گزرتے تھے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے عالمی بینک کی ثالثی میں 1960 میں تاریخی سندھ طاس معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے کے تحت تین مشرقی دریا (ستلج، بیاس، راوی) کا پانی بھارت کو مکمل طور پر استعمال کرنے کی اجازت دی گئی، جبکہ تین مغربی دریا (سندھ، جہلم، چناب) کا زیادہ تر پانی پاکستان کے لیے محفوظ کیا گیا ۔ البتہ بھارت کو مغربی دریاؤں پر کچھ محدود استعمال (جیسے پن بجلی اور زرعی ضرورت کے لیے) کی اجازت بھی دی گئی، مگر وہ ایسا کوئی اقدام نہیں کرے گا جس سے پاکستان کے حصے کے پانی میں خاطر خواہ کمی ہو۔
یہ معاہدہ اپنی نوعیت کا منفرد اور کامیاب معاہدہ سمجھا جاتا رہا ہے کیونکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان 1965 اور 1971 میں جنگیں ہوئیں، 1999 میں کارگل تنازع ہوا، لیکن ان تمام کشیدہ حالات کے باوجود اس آبی معاہدے کی پابندی کی گئی اور کسی فریق نے پانی بند کرنے جیسا قدم نہیں اٹھایا۔ سندھ طاس معاہدے کو دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کے قدیم ترین اقدامات (CBM) میں سے ایک گردانا جاتا ہے ۔
حالیہ دہائیوں میں بھارت اور پاکستان کے درمیان دریاؤں پر کئی چھوٹے تنازعات بھی ابھرے، جن میں بھارت کی جانب سے کشمیر میں بجلی بنانے کے لیے ڈیم تعمیر کرنا (جیسے بگلیہار ڈیم، کشن گنگا پراجیکٹ) شامل ہیں۔ پاکستان نے ان پر اعتراض کیا اور معاملہ عالمی ثالثی عدالتوں تک گیا جس میں بعض اوقات پاکستان کا موقف تسلیم کیا گیا اور ڈیزائن میں تبدیلیاں ہوئیں۔ ان معاملات کے باوجود معاہدہ برقرار رہا۔ تاہم، بھارت میں کچھ حلقوں کی رائے رہی ہے کہ پاکستان کی جانب سے دہشتگردی کی مبینہ سرپرستی کے باوجود بھارت کا پانی بانٹتے رہنا مناسب نہیں۔ 2016 میں اوڑی حملے کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ “خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے” ، جس کا مطلب تھا کہ اگر پاکستان دہشتگردی سے باز نہ آیا تو بھارت پانی کے معاہدے پر دوبارہ غور کر سکتا ہے۔ 2019 میں پلوامہ حملے کے بعد بھی ایسے بیانات سامنے آئے اور بھارت نے اپنے حصے کے دریاؤں کا پانی زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کے اقدامات شروع کیے۔
2023-24 میں صورتحال مزید خراب ہوئی جب پاکستان نے بھارت کے کچھ نئے ڈیموں پر اعتراض اٹھا کر ثالثی کا راستہ اپنایا تو بھارت ناراض ہوا۔ جنوری 2023 میں بھارت نے باضابطہ طور پر پاکستان کو معاہدے پر ازسرنو مذاکرات کا نوٹس بھیجا، جو 1960 کے معاہدے کے تحت پہلی دفعہ ہوا تھا (اسے بعض نے معاہدہ ختم کرنے کی دھمکی کے طور پر دیکھا) ۔ یوں یہ معاہدہ پہلے ہی دباؤ کا شکار تھا۔
اپریل 2025 میں مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ایک دہشتگرد حملے میں درجنوں افراد (زیادہ تر بھارتی سیاح) ہلاک ہوئے ۔ بھارت نے الزام لگایا کہ اس حملے میں پاکستان کا ہاتھ ہے (جبکہ پاکستان نے تردید کی) ۔ اس واقعے نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور بھارت نے سخت اقدامات کا اعلان کر دیا، جن میں پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ ”عارضی طور پر معطل“ کرنا بھی شامل تھا  ۔ بھارت کے حکام نے کہا کہ جب تک پاکستان اپنی سرزمین سے دہشتگردی کی حمایت بند نہیں کرے گا، تب تک یہ معاہدہ مؤثر نہیں ہوگا ۔ اس کے جواب میں پاکستان نے بھی جوابی اقدامات کیے، جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، اور اس طرح دونوں ملک عملی طور پر ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کی حالت میں آ گئے ہیں۔
یہ تاریخی اور سیاسی پس منظر سمجھنا اس لیے ضروری ہے کہ دریائے سندھ پر حالیہ کشیدگی کوئی اچانک واقعہ نہیں بلکہ برسوں کے عدم اعتماد، دہشتگردی، اور آبی وسائل پر بڑھتے دباؤ کا نتیجہ ہے۔ یہ دریا جغرافیائی اعتبار سے بھی پاکستان کی شہ رگ اور بھارت کے زیرکنٹرول ہے، اور سیاسی اعتبار سے بھی دونوں ممالک کے قومی بیانیے کا حصہ بن چکا ہے۔ ایسے میں اس پر ہونے والا تنازعہ فطری طور پر انتہائی حساس اور خطرناک شکل اختیار کر گیا ہے۔
نتیجہ اور ممکنہ راستۂ حل
ڈیلی ٹیلیگراف کے مضمون اور مجموعی تجزیے کا لب لباب یہ ہے کہ دریائے سندھ کے پانی پر تنازعہ جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکا ہے۔ مضمون نے اسے دنیا کا خطرناک ترین دریا اس لیے کہا ہے کہ اس ایک دریا کے پانی پر دو ایٹمی طاقتوں کی بقا اور عزت کا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی امن کو بھی داؤ پر لگا سکتی ہے، جس کے سبب تیسری عالمی جنگ جیسا خوفناک منظرنامہ زیرِ بحث آ رہا ہے۔
تاہم، ماہرین اس صورتحال کا حل بھی مذاکرات اور تحمل میں دیکھتے ہیں۔ سندھ طاس معاہدہ خود ایک ایسا فریم ورک ہے جس نے دہائیوں تک پانی کے تنازع کو قابو میں رکھا۔ اس معاہدے میں اختلافات کے حل کے لیے ایک تین سطحی نظام موجود ہے اور اسے جدید تقاضوں کے مطابق مضبوط بنانے کی ضرورت ہے ۔ دونوں ممالک کو چاہیے کہ اس معاملے کو سیاسی نعروں کی بجائے تکنیکی اور باہمی تعاون کے تناظر میں دیکھیں ۔ پانی کی تقسیم کا مسئلہ طاقت کے زور سے حل کرنے کی کوشش تباہ کن ہوگی – اس کا حل تبھی ممکن ہے جب دونوں فریق اعتماد سازی کریں، دہشتگردی سمیت تمام تنازعات پر سنجیدگی سے بات چیت کریں اور پانی کے معاملے کو جنگ کی بجائے مشترکہ بقا کے مسئلے کے طور پر لیں۔
آخر میں، عالمی برادری پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھارت اور پاکستان کو کشیدگی کم کرنے پر آمادہ کرے۔ اقوامِ متحدہ، عالمی بینک اور دیگر متعلقہ فورمز کو اس بحران کا نوٹس لینا چاہیے تاکہ دوبارہ مذاکرات کا آغاز ہو سکے۔ اگرچہ صورتحال انتہائی نازک ہے، لیکن بروقت سفارتی کوششیں اور دونوں ممالک کی قیادت کا تدبر ہی دریائے سندھ کو حقیقی معنوں میں خطرناک ترین دریا بننے سے روک سکتا ہے اور جنوبی ایشیا کو جنگ کی تباہ کاری سے بچا سکتا ہے۔
حوالہ جات: معتبر ذرائع سے اخذ کردہ معلومات کے ثبوت درج ذیل ہیں:
• بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور جوہری ہمسایوں میں کشیدگی 
• پہلگام (کشمیر) حملے کے بعد بھارت کا معاہدہ معطل کرنے اور دیگر اقدامات کا اعلان  
• پاکستان کی جانب سے پانی روکنے کو “جنگ کا اقدام” قرار دینے کا بیان 
• سندھ طاس معاہدے کی اہمیت، بطور ایک تاریخی استحکام کا ذریعہ اور پاکستان کی زرعی معیشت کے لیے زندگی لائن  
• معاہدے کے تحت دریاؤں کی تقسیم اور یکطرفہ طور پر معاہدہ معطل کرنے کی شق کی عدم موجودگی 
• بھارت کے لیے بطور بالائی ملک معاہدے کی کم اہمیت اور سیاسی دباؤ کے حربے کا ذکر  
• ماہرین کی جانب سے پانی کے تنازعات اور آب و ہوا کی تبدیلی کے تناظر میں بڑھتے خطرات کی نشاندہی

Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.