سر سید احمد خان عورتوں کی تعلیم کے سخت مخالف کیوں تھے
(تاریخ اور عورت - ڈاکٹر مبارک علی)
سر سید احمد خان عورتوں کی تعلیم کے سخت مخالف کیوں تھے؟
جب بھی سر سید احمد خان کا ذکر آتا ہے تو مسلمانوں کی تعلیم کے زبردست محرک کا تصور ذہن میں آتا ہے لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ یہی سر سید عورتوں کی تعلیم کے سخت مخالف تھے۔
ان کی دلیل یہ تھی کہ جب تک عورت اپنے حقوق سے ناواقف رہے گی وہ وفادار اور تابع ہو گی۔ اگر وہ باشعور ہو گئی اور اپنے حقوق کا احساس ہو گیا تو گھر اور معاشرے کا امن برقرار نہیں رہے گا اور وہ روایات کی پابندی نہیں کرے گی۔
ایک جگہ تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میری خواہش نہیں کہ تم ان مقدس کتابوں کے بدلے جو تمہاری نانیاں اور دادیاں پڑھتی آئی ہیں، اس زمانے کی نامروجہ اور نامبارک کتابوں کا پڑھنا اختیار کرو۔
جب مولوی ممتاز علی نے عورتوں کے لیے رسالہ نکالنے کی تجویز پیش کی تو سرسیّد نے اس کی مخالفت کی اور انہیں رسالہ نکالنے سے منع کیا۔ ممتاز علی بھی روایت پرست تھے لہٰذا انھوں نے سرسید کی زندگی میں تو رسالہ نہیں نکالا۔
سر سید کے ہم عصروں نے بھی عورتوں کی تعلیم کی مخالفت کرتے ہوئے ناول لکھے اور نظمیں کہیں۔
اس دور کے سماجی حالات
سر سید کے زمانے میں ہندوستان میں مسلمان سماج دو طبقوں میں تقسیم تھا: امرا کا طبقہ اور نچلے درجے کے لوگ۔ امرا کی طرزِ زندگی میں عورتوں کے تحفظ کا خیال رکھا جاتا تھا۔ وہ پردہ کرتی تھیں، گھر سے باہر جانے پر پابندی تھی، لکھائی پڑھائی کے مواقعے بھی ان کے لیے بند تھے، سوائے اس کے کہ تھوڑی بہت مذہبی تعلیم دی جاتی تھی۔
نچلے طبقے کی عورتیں گھریلو کاموں میں مصروف رہتی تھیں اور ان کی پوری زندگی گھر کی چار دیواری میں گزر جاتی تھی۔
برطانوی دور میں عورت کی حالت پر نظر
جب انگریزی اقتدار قائم ہوا تو انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں عورت کو معاشرے میں عزت حاصل نہیں، اس لیے عورت کے کردار کو سامنے لانا چاہیے۔ ہندوﺅں میں برہمو سماج نے عورتوں کی اصلاح کی طرف توجہ دی لیکن مسلمان معاشرے میں صورتحال کو جوں کا توں رکھا گیا۔
اقبال، اکبر اور دیگر ادیبوں کی رائے
ڈپٹی نذیر احمد نے اکبری و اصغری کے ذریعے مثالی گھریلو عورت کا تصور دیا۔ اکبر الٰہ آبادی نے بے پردہ عورتوں کی سخت مخالفت کی۔ اقبال نے بھی اعلان کیا کہ عورت صرف مرد کی تابع ہو۔
اقبال کا شعر:
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی، ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ
روش مغربی ہے مدنظر، وضعِ مشرق کو جانتے ہیں گناہ
مولانا اشرف علی تھانوی اور بہشتی زیور
مولانا تھانوی کے مطابق عورتوں کو صرف اس قدر تعلیم دینی چاہیے کہ وہ دھوبی کا حساب رکھ سکیں۔ ان کے خیال میں تعلیم سے عورتیں عشقیہ خطوط لکھنے لگیں گی۔
شیخ عبداللہ اور ان کی بیٹی رشید جہاں
شیخ عبداللہ نے مسلم علی گڑھ کالج میں عورتوں کا کالج کھولا، جو انقلابی قدم تھا۔ ان کی بیٹی رشید جہاں نے ڈاکٹری پڑھی اور ادب و سیاست میں حصہ لیا۔ وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی رکن بنیں۔
نتیجہ
یہ ثابت ہوتا ہے کہ ادارے اور روایات مستقل نہیں رہتیں بلکہ حالات کے تحت انہیں بدلنا ضروری ہو جاتا ہے۔ ایک طویل عرصے تک عورتوں کو جاہل رکھا گیا تاکہ وہ احتجاج نہ کریں۔
آج عورت زندگی کے ہر شعبے میں شامل ہے، اس لیے معاشرہ بھی ہر میدان میں ترقی کر رہا ہے۔
:
جب بھی سر سید احمد خان کا ذکر آتا ہے تو مسلمانوں کی تعلیم کے زبردست محرک کا تصور ذہن میں آتا ہے لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ یہی سر سید عورتوں کی تعلیم کے سخت مخالف تھے
ان کی دلیل یہ تھی کہ جب تک عورت اپنے حقوق سے ناواقف رہے گی وہ وفادار اور تابع ہو گی
اگر وہ باشعور ہو گئی اور اپنے حقوق کا احساس ہو گیا تو گھر اور معاشرے کا امن برقرار نہیں رہے گا اور وہ روایات کی پابندی نہیں کرے گی
ایک جگہ تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میری خواہش نہیں کہ تم ان مقدس کتابوں کے بدلے جو تمہاری نانیاں اور دادیاں پڑھتی آئی ہیں
اس زمانے کی نامروجہ اور نامبارک کتابوں کا پڑھنا اختیار کرو
جب مولوی ممتاز علی نے عورتوں کے لیے رسالہ نکالنے کی تجویز پیش کی تو سرسیّد نے اس کی مخالفت کی اور انہیں رسالہ نکالنے سے منع کیا
ممتاز علی بھی روایت پرست تھے لہٰذا انھوں نے سرسید کی زندگی میں تو رسالہ نہیں نکالا مگر ان کی سر سید کے ہم عصروں نے بھی عورتوں کی تعلیم کی مخالفت کرتے ہوئے ناول لکھے اور نظمیں کہیں
سر سید کے زمانے میں ہندوستان میں مسلمان سماج دو طبقوں میں تقسیم تھا، امرا کا طبقہ اور نچلے درجے کے لوگ
امرا کی طرزِ زندگی میں عورتوں کے تحفظ کا خیال رکھا جاتا تھا
وہ پردہ کرتی تھیں، گھر سے باہر جانے پر پابندی تھی
لکھائی پڑھائی کے مواقعے بھی ان کے لیے بند تھے سوائے اس کے کہ تھوڑی بہت مذہبی تعلیم دے دی جاتی تھی
گھر میں مرد کی بالادستی ہوتی تھی اور امرا کئی بیویاں رکھتے تھے
نچلے طبقے کی عورتیں گھریلو کاموں میں مصروف رہتی تھیں اور ان کی پوری زندگی گھر کی چار دیواری میں گزر جاتی تھی
کیونکہ ہر فرد اس ماحول کا عادی ہو چکا تھا اس لیے اس میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی تھی
ہندوستان میں جب انگریزی اقتدار قائم ہوا تو انہوں نے سماج کی پسماندگی پر اظہار خیال کرتے ہوئے یہ کہا کہ چونکہ ہندوستان میں عورت کو معاشرے میں کوئی عزت حاصل نہیں ہے
اور معاشرہ اس کی صلاحیتوں سے محروم ہے اس لیے عورت کے کردار کو سامنے لانا چاہیے
ہندوﺅں میں برہمو سماج نے عورتوں کی اصلاح کی طرف توجہ دی لیکن مسلمان معاشرے میں صورتحال کو برقرار رہنے پر زور دیا
اقبال کے لیے عورت فقط شو پیس:
ڈپٹی نذیر احمد نے اپنے ناولوں میں اکبری اور اصغری کے ناموں سے گھریلو عورتوں کا خاکہ پیش کیا
اکبر الٰہ آبادی نے اپنی شاعری میں جدیدیت اور عورتوں کے حقوق کی سخت مخالفت کی
وہ بےپردہ عورتوں کو دیکھ کر غیرت قومی سے زمین میں گڑ گئے تھے یعنی پردہ قومی عزت کی علامت تھا
اقبال بھی پیچھے نہیں رہے اور اُنہوں نے بھی اعلان کر دیا کہ نسوانیت زَن کا نگہبان ہے فقط مرد
اقبال عورت کو تصویرِ کائنات میں فقط رنگ قرار دے کر اس کی حیثیت بطور شو پیس متعین کر دی اور ساتھ ہی لڑکیوں کے انگریزی پڑھنے کو طنز کا نشانہ بنایا
(لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ
روش مغربی ہے مدنظر وضعِ مشرق کو جانتے ہیں گناہ
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ)
جب عورتوں کا پردہ ختم کرنے کی بحث چلی تو عبدالحلیم شرر نے اس کی حمایت کی
ایک دن جب وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ شام کے وقت صحن میں بیٹھے ہوئے تھے تو ایک صاحب بغیر کسی اجازت کے گھر میں گھستے چلے آئے
جب ان سے سوال کیا گیا کہ آپ کون ہیں، کیوں اس طرح سے گھر میں چلے آئے ہیں
وہ کہنے لگے کہ آپ تو پردے کے مخالف ہیں اس لیے اگر میں آ گیا تو آپ کو کیا اعتراض ہے
شاید انہیں معلوم نہیں تھا کہ پردہ ہو یا نہ ہو، گھر میں بغیر اجازت گھس آنا غیراخلاقی ہے
ان تمام رکاوٹوں کے باوجود حقوق نسواں کے حامی عورتوں کی تعلیم کے لیے ادارے کھلتے رہے
مشہور ماہر تعلیم شیخ عبداللہ نے تمام مخالفتوں کے باوجود مسلم علی گڑھ کالج میں عورتوں کا کالج کھولا جو انقلابی قدم تھا
عورت اتنا پڑھے کہ دھوبی کا حساب رکھ سکے:
ایک طرف جہاں نجی طور پر تعلیم کے لیے ادارے کھولے جا رہے تھے وہیں دوسری جانب حکومت بھی سکول اور کالج قائم کر رہی تھی
جب لڑکیوں کے لیے سکول قائم ہوئے تو ہندوستان کے دوسرے مذاہب کی لڑکیوں نے داخلہ لینے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی مگر مسلمانوں میں اس کی سخت مخالفت کی گئی
وہ اس کے خلاف تھے کہ لڑکیوں کو سکول بھیجا جائے
اس مہم میں سب سے زیادہ حصہ مولانا اشرف علی تھانوی نے لیا جنہوں نے بہشتی زیور لکھ کر قدیم روایات کا تحفظ کیا
ان کی دلیل یہ تھی کہ اول تو لڑکیوں کو قطعی سکول نہیں بھیجنا چاہیے اور اگر سکول میں کوئی میم استاد ہو تو پھر تو وہاں داخلہ لینا بالکل نہیں چاہیے
ان کے خیال میں عورتوں کو صرف اس قدر لکھنا پڑھنا سکھانا چاہیے کہ وہ دھوبی کا حساب رکھ سکیں
انہیں سب سے بڑا خطرہ یہ تھا کہ اگر لڑکیوں نے لکھنا سیکھ لیا تو وہ عشقیہ خطوط لکھیں گی
مولانا اس کے بھی قائل نہ تھے کہ عورتیں گھروں سے باہر جائیں اور محفلوں میں شریک ہوں
عورتوں کو اَن پڑھ رکھنے اور سماجی سرگرمیوں سے دور رکھنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ کوئی احتجاج نہ کرے اور خاموشی سے ہر ظلم کو برداشت کرے
چونکہ یہ کتاب پدرسری کی روایات کا تحفظ کرتی ہے اس لیے آج بھی اسے جہیز میں دیا جاتا ہے اور اب انگریزی داں طبقے کے لیے اس کا انگلش میں ترجمہ بھی ہو گیا ہے
شیخ عبداللہ کی بیٹی رشید جہاں نے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کی اور وہ خواتین میں سے تھیں جنھوں نے ادب اور سیاست میں حصہ لیا
اور پھر یہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی فعال رکن بنیں
ادب اور سیاست میں نام پیدا کیا
اس کے بعد سے نہ صرف یہ کہ عورتوں کے لیے رسالے نکالے گئے بلکہ خواتین لکھنے والیاں میدان ادب میں داخل ہوئی اور اپنی تحریروں سے روایات شکنی شروع کی
اب موجودہ دور میں تحریک نسواں کافی زور پکڑ گئی ہے
انگریزی دور حکومت میں جہاں مردوں نے آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا وہیں عورتوں نے بھی تحریک کو آگے بڑھایا
اس مطالعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ادارے اور روایات اپنی قدامت کے باوجود مستقل نہیں رہتے ہیں بلکہ بدلتے ہوئے حالات کے تحت انہیں تبدیل کرنا ضروری ہو جاتا ہے
ایک طویل عرصے تک عورتوں کو جاہل اور گھر کی چار دیواری میں بند رکھ کر ان کی ذہانت سے معاشرے کو محفوظ رکھا گیا
اب جبکہ عورتیں زندگی کے تقریباً سبھی شعبوں میں آ گئی ہیں، معاشرہ اس لیے ہر شعبے میں ترقی کر رہا ہے۔
![]() |
تحریر: ڈاکٹر مبارک علی
Why Was Sir Syed Ahmad Khan Strongly Opposed to Women’s Education?
Sir Syed Ahmad Khan is often celebrated as a pioneering advocate for Muslim education in colonial India. However, few are aware that he was a staunch opponent of women's education. He believed that as long as women remained unaware of their rights, they would remain loyal and obedient. He feared that an educated woman, aware of her rights, would disrupt the peace of the home and society and would not adhere to traditional customs.
In one of his speeches, he expressed his desire that women should continue reading the sacred books their grandmothers and great-grandmothers read, rather than adopting the contemporary, unfamiliar, and, in his view, inappropriate literature of the time.
When Maulvi Mumtaz Ali proposed launching a magazine for women, Sir Syed opposed the idea and discouraged him from proceeding. Mumtaz Ali, being a traditionalist, refrained from publishing the magazine during Sir Syed's lifetime.
Contemporaries of Sir Syed also opposed women's education, expressing their views through novels and poetry.
Social Conditions of the Time
During Sir Syed's era, Muslim society in India was divided into two classes: the aristocracy and the lower classes. In aristocratic circles, women's protection was emphasized. They observed purdah, were restricted from going outside, and had limited access to education, primarily receiving some religious instruction. The household was dominated by men, and polygamy was common.
Women from lower classes were engaged in household chores, spending their entire lives within the confines of their homes. Since everyone was accustomed to this environment, no one perceived it as problematic.
British Perspective on Women's Status
With the establishment of British rule in India, the colonial authorities observed the backwardness of society and noted that women lacked respect and recognition. They emphasized the need to bring women's roles to the forefront. While Hindu reform movements like the Brahmo Samaj focused on women's reform, Muslim society largely resisted changes, aiming to maintain the status quo.
Views of Iqbal, Akbar, and Other Writers
Deputy Nazir Ahmad, in his novels, portrayed ideal domestic women through characters like Akbari and Asghari. Akbar Allahabadi vehemently opposed modernity and women's rights in his poetry, expressing distress upon seeing unveiled women, equating purdah with national honor. Allama Iqbal also declared that femininity is safeguarded solely by men, reducing women's role in the universe to mere adornment and criticizing girls for learning English.
Iqbal's verse:
Girls are studying English, the nation has found the path to salvation;
Western methods are in focus, Eastern traditions are considered sinful.
Maulana Ashraf Ali Thanvi and "Bahishti Zewar"
Maulana Thanvi argued that girls should not be sent to school, especially if the teacher was a foreign woman. He believed women should only be taught enough to manage household accounts. He feared that if girls learned to write, they would engage in romantic correspondence. He also opposed women leaving their homes and participating in gatherings.
Sheikh Abdullah and His Daughter Rasheed Jahan
Despite opposition, Sheikh Abdullah established a women's college at Aligarh Muslim College, a revolutionary step. His daughter, Rasheed Jahan, pursued medical education and actively participated in literature and politics, becoming a prominent member of the Progressive Writers' Association.
Conclusion
This analysis demonstrates that institutions and traditions, despite their antiquity, are not immutable and must evolve with changing circumstances. For a long time, women were kept ignorant and confined to their homes to suppress their intellect. Now that women are participating in nearly all sectors of life, society is progressing in every field.

Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.