Afghan Jehad aw Deeni Madras says Pa Pakistan Ki. Afghan Jehaad, US Role In Funding Deeni Maddaris.
جب جنرل ضیاء الحق نے 1977 میں مارشل لا کے ذریعے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے اسلام کو ریاستی پالیسی کا مرکز بنایا۔ حسن عباس اپنی کتاب پاکستان کی شدت پسندی کی طرف جھکاؤ میں لکھتے ہیں کہ ضیاء الحق کے دور میں مدارس کی تعداد 300 سے بڑھ کر 3 ہزار تک جا پہنچی۔ اس اضافے کے پیچھے ریاستی سرپرستی اور مالی تعاون شامل تھا، جس کا مقصد معاشرے کو ایک خاص مذہبی سانچے میں ڈھالنا تھا۔
1979 میں جب افغانستان میں سوشلسٹ انقلاب کو برقرار رکھنے کے لیے سوویت یونین افغانستان میں آگیا تو امریکہ، سعودی عرب اور پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں نے ایک مشترکہ منصوبے کے تحت "جہاد" کو فروغ دینا شروع کیا۔ اس منصوبے میں سب سے اہم کردار پاکستان کے مدارس نے ادا کیا۔ معروف صحافی اور مصنف اسٹیو کول اپنی کتاب گوسٹ وارز میں لکھتے ہیں کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے پشتو اور دری زبان میں ایسے تعلیمی کتابچے تیار کروائے جو افغانستان میں جہاد کو مقدس فریضہ کے طور پر پیش کرتے تھے، اور یہ نصاب پاکستانی مدارس میں تقسیم کیا گیا۔
اسی عرصے میں یونیورسٹی آف نیبراسکا کے تعاون سے تیار کردہ درسی مواد مدارس میں تقسیم کیا گیا جس میں ہتھیاروں کی تصاویر، جنگی ترغیب اور روس کے خلاف نفرت پر مبنی اسباق شامل تھے۔ بروکنگز ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق، ضیاء الحق کے دور میں ہزاروں طلباء کو افغان جنگ کے لیے مدارس سے بھرتی کیا گیا، جنہیں سرحد پار لڑنے کے لیے بھیجا جاتا تھا۔
نائن الیون کے بعد صورت حال میں ڈرامائی تبدیلی آئی۔ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا آغاز کیا اور پاکستان کو اس میں اپنا اہم اتحادی بنایا۔ اس دوران جنرل پرویز مشرف نے 2002 میں مدارس کی اصلاحات کا اعلان کیا، جن کے تحت مدارس کو رجسٹر کرنے، جدید مضامین شامل کرنے اور غیر ملکی طلباء کی نگرانی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ تاہم پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق، ان میں سے صرف 10 فیصد مدارس نے خود کو رجسٹر کروایا۔
ادھر خیبر پختونخواہ میں واقع دارالعلوم حقانیہ، جو کئی طالبان رہنماؤں کا alma mater رہا ہے،
صوبائی حکومت نے 2016 میں 30 کروڑ روپے کی گرانٹ دی۔ بی بی سی اردو کے مطابق، اس مدرسے سے ملا عمر، اختر منصور اور دیگر اہم طالبان رہنما تعلیم یافتہ ہیں۔ اسی وجہ سے مغربی میڈیا نے اسے "یونیورسٹی آف جہاد" کا لقب دیا۔
معروف دانشور روشن خان اپنی کتاب قبائلی علاقوں کی سیاست اور ریاستی پالیسی میں لکھتے ہیں کہ "ریاست ایک طرف دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑنے کا دعویٰ کرتی ہے، مگر دوسری طرف وہی ریاست کچھ عناصر کو تحفظ اور معاونت فراہم کرتی ہے"۔
عارف جمال اپنی کتاب کال فار ٹرانزیشنل جہاد میں اس امر پر روشنی ڈالتے ہیں کہ کس طرح پاکستان میں ایسے عناصر موجود تھے جو ایک طرف امریکہ سے امداد لے رہے تھے، اور دوسری طرف طالبان کو خاموشی سے منظم کر رہے تھے۔
فرحت تاج، جو ایک ممتاز پشتون قوم پرست اسکالر ہیں، اپنی کتاب طالبان اینڈ انٹی طالبان میں لکھتی ہیں کہ "پشتون خطہ ریاست کے دوغلے پن کا سب سے بڑا شکار بنا۔ ہمیں بتایا گیا کہ ہم امن کے لیے قربانی دے رہے ہیں، جبکہ درپردہ جنگ کی آگ ہمارے گھروں میں لگائی جا رہی تھی۔"
ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ آئی ایس آئی کے سابق اہلکار اسد درانی اور سی آئی اے کے سابق سربراہ مائیکل ہیڈن نے مختلف مواقع پر تسلیم کیا ہے کہ طالبان کو مختلف اوقات میں بطور "اسٹریٹیجک اثاثہ" استعمال کیا گیا۔
یہ تمام حقائق ہمیں اس نتیجے پر پہنچاتے ہیں کہ پاکستان کے مدارس ایک وقت میں امریکہ اور ریاست کے لیے جہاد کے ہتھیار بنے، پھر وہی مدارس دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سوالیہ نشان بنے۔ ضیاء کے دور میں جو بیج بوئے گئے، وہ بعد ازاں ایک نظریاتی جنگ کی صورت اختیار کر گئے، جس کا دائرہ کار صرف پاکستان تک محدود نہیں رہا بلکہ عالمی سطح پر محسوس کیا گیا۔
منقول است
Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.