ملاکنڈ پیڈیا ۔
جب ریاست دیر کے خان اورنگزیب خان کو نوابزم کی سند عطا کئ گئ۔
ملاکنڈ ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ لیفٹیننٹ کرنل اسٹیورٹ ایچ گاڈ فرے اپنی ملاکنڈ کی ڈائری بمورخہ 10 جولائی 1908 میں رقمطراز ہیں
میں لیفٹیننٹ کرنل اسٹیورٹ ایچ گاڈ فرے نائب سیاسی نمائندہ (Political Agent) نے نواب دیر سے واڑی میں ملاقات کی، جہاں میں ان وفادار خانوں کو حکومتی انعامات تقسیم کرنے کے لیے گیا جنہوں نے باجوڑ کی سرحد پر خدمات انجام دی تھیں۔
بادشاہ خان آف دیر کو جو رتبہ نواب کا حکومتِ عالیہ (یعنی وائسرائے) کی طرف سے عطا کیا گیا تھا، اس کا سند نائب سیاسی نمائندہ کو دورانِ سفر موصول ہوا، جو نواب کو ان کے دارالحکومت دیر میں پہنچ کر دیا جائے گا۔
دیر اور سوات کے عوام نے حکومت کی طرف سے ان کی خدمات کو سراہنے کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا، بالخصوص ان دو مقامی اسسٹنٹس کے لیے جو دیر اور سوات میں طویل عرصے تک سیاسی ایجنسی میں خدمات انجام دیتے رہے اور عوام و خوانین دونوں میں مقبول ہیں، انہیں سیاسی پنشن دی گئی۔
اس سارے عمل کا خلاصہ شاید رانی کے خان کے اس الوداعی جملے میں واضح ہے، جو اُس نے رباط لیوی چوکی سے روانگی کے وقت کہا:
"اگر آپ ہمیں سرتور فقیر (باغی عناصر) کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمیں اطلاع دے دیجیے۔"
نئے رُتبے نوابزم کا سند 12 جولائی کو نوابِ دیر کو پیش کیا گیا۔ اس موقع پر نواب کے نئے محل کے صحن میں روایتی پٹھان انداز میں مشعل بردار تقریب کا اہتمام کیا گیا، جو نہایت دیدہ زیب منظر پیش کر رہا تھا۔
راستے میں سیاسی ایجنٹ کو یہ اشارہ ملا تھا کہ کوہستانی لوگ ان کے دورے کے لیے تیار ہیں۔ نواب اور دیر کے عوام خوش تھے، ایک طرف نواب اور اُس کے بھائی کے درمیان جاری کشمکش کا خاتمہ ہو چکا تھا، اور دوسری طرف پنجکوڑہ میں اُن کی کامیابی اور حکومت کی جانب سے اُنہیں دی گئی اہمیت نے اُن کے حوصلے بلند کیے تھے۔ لہٰذا یہ موقع ضائع کرنا مناسب نہ تھا۔
اگرچہ پالم بابا کی طرف سے سیاسی ایجنٹ کے اُن علاقوں کے دورے پر اعتراض کی خبر ملی تھی جو اب تک یورپیوں کے لیے غیر معروف تھے، لیکن پائندہ خیل کے سرداروں سے ملاقات کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ یا تو پالم بابا کے خیالات کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا تھا، یا اُن کی رائے میں تبدیلی آ چکی ہے۔
پہاڑی راستہ اس لیے منتخب کیا گیا کہ ابھی تک کوئی برطانوی افسر اس راستے سے نہیں گزرا تھا۔ نوابِ دیر، اُس کے ذاتی محافظوں کی بڑی تعداد، اور دیر لیویز کے ایک دستے نے سیاسی ایجنٹ کو روخان اور آیاگئی کے دروں سے ہوتے ہوئے آیاگئی تک پہنچایا۔ یہاں سے قافلہ شرینگل کی جانب روانہ ہوا، جو اب بھی میانگل جان کی ملکیت ہے، اور جہاں شاہی بی بی کا ایک مکان واقع ہے۔
شرینگل سے قافلہ دریائے پنجکوڑہ کے ساتھ ساتھ پاتراک پہنچا، جہاں وہ 15 جولائی کو وارد ہوا۔ پاتراک، جو کہ کاکا خیل میاں کے زیر انتظام پشاور کے لکڑی کے کاروبار کا مرکز ہے، دیر کے بالائی کوہستان کا ابتدائی مقام ہے۔
پاتراک کے کوہستانیوں کے ایک جرگے نے سیاسی ایجنٹ سے ملاقات کی، تاکہ نواب کے سامنے اُن کے کچھ معاملات پیش کرنے کی درخواست کی جا سکے۔ سیاسی ایجنٹ نے انہیں بتایا کہ یہ کام اُس وقت زیادہ مؤثر ہوگا جب وہ خود بالائی کوہستان کا دورہ کر لے گا۔ جرگے نے اس بات سے اتفاق کیا اور شمال میں موجود اپنے رشتہ داروں کو اس بارے میں اطلاع دے دی۔
اس مختصر دورے کے دوران حاصل شدہ مشاہدات کو ایک علیحدہ رپورٹ کی صورت میں حکومتِ ہند اور انٹیلیجنس برانچ کے لیے محفوظ کیا گیا ہے، کیونکہ اس راستے کا صرف وہی حصہ پہلے کسی برطانوی افسر نے طے کیا تھا جو پاتراک اور شرینگل کے درمیان واقع ہے، اور جسے میجر کینیون نے اُس وقت دیکھا تھا جب وہ چترال سے گوالدئی نالہ اور چوتیاتن پل کے راستے واپس آئے تھے۔
دیر کے یوسفزئی قبائل کے اسلحہ کی برتری اب سے چھ سال پہلے کے مقابلے میں خاصی نمایاں ہے۔ پہلے صرف خان صاحبان کے پاس ریپیٹنگ (بریچ لوڈنگ) رائفلیں ہوتی تھیں، جب کہ ان کے پیروکاروں کے پاس صرف دہانے سے بھری جانے والی بندوقیں ہوتی تھیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ جدید بریچ لوڈر عام ہو چکے ہیں، اور پرانے دہانے سے بھرنے والے ہتھیار کم یاب ہو گئے ہیں۔
زیادہ تر مارٹینی رائفلیں اور ان کا بارود کوہاٹ میں تیار ہوتا ہے۔ یہ سوال غور طلب ہے کہ آیا کوہاٹ درے میں مارٹینی ہنری رائفلز اور گولہ بارود کی کھلے عام فروخت پر کوئی پابندی لگائی جانی چاہیے یا نہیں، کیونکہ یہ زیادہ تر سرحد پار کے علاقوں میں پہنچتا ہے۔
امجد علی اتمانخیل آرکائیوز

Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.