Skip to main content

امریکہ اور پاکستان کے درمیان تیل کی تلاش کے لیے ایک معاہدہ

تیل کی تلاش میں امریکا-پاکستان شراکت: تحقیقاتی جائزہ — مہمان بلاگ: خاطر پٹھان

تیل کی تلاش میں امریکا-پاکستان شراکت: تحقیقاتی جائزہ

تحریر: خاطر پٹھان ریسرچز | مہمان بلاگ پوسٹ


🔍 تعارف

جولائی 2025 کی ایک گرم صبح، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا ایپ "ٹروتھ سوشل" پر ایک ایسا اعلان کیا جس نے دنیا کو حیران کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکا اور پاکستان کے درمیان ایک نیا تیل معاہدہ طے پایا ہے، جس کے تحت دونوں ممالک پاکستان کے تیل کے ذخائر کو مشترکہ طور پر ترقی دیں گے۔ اس ایک سطر نے میڈیا، ماہرین اور پالیسی سازوں کو ایک نئی بحث میں جھونک دیا۔

🛢 معاہدے کی جھلکیاں

  • ٹرمپ نے اعلان کیا: "ہم پاکستان کے وسیع تیل کے ذخائر پر مشترکہ ترقی کریں گے۔"
  • پاکستان کے وزیر خارجہ احسن در اور وزیر خزانہ اورنگزیب نے تصدیق کی۔
  • وزیر اعظم شہباز شریف نے اسے "تاریخی موقع" قرار دیا۔
  • معاہدے کا مقصد دو طرفہ تجارت، سرمایہ کاری، اور مارکیٹ تک رسائی میں اضافہ ہے۔

📈 ٹرمپ کی دلچسپی کیوں؟

اس سوال پر غور کریں: ٹرمپ کو پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں تیل تلاش کرنے میں دلچسپی کیوں ہے؟ جواب اتنا سادہ نہیں، بلکہ اس میں کئی جہتیں شامل ہیں:

  1. معاشی فائدے: پاکستان کی تیل درآمدات میں کمی اور امریکا کے لیے تجارت میں وسعت۔
  2. جیوپولیٹیکل حکمت عملی: چین کے اثر کو کم کرنے کے لیے پاکستان سے تعلقات مضبوط کرنا۔
  3. توانائی کی سکیورٹی: ممکنہ ذخائر پر امریکی کنٹرول یا شراکت داری۔
  4. سفارتی دباؤ کا ذریعہ: پاکستان پر چینی اثر کو متوازن کرنے کی کوشش۔

🌍 پاکستان کے تیل کے ذخائر: حقیقت کیا ہے؟

یہاں سوال اٹھتا ہے: کیا پاکستان کے پاس واقعی وہ "وسیع" ذخائر ہیں جن کی ٹرمپ بات کر رہے ہیں؟ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ:

علاقہ ذخائر کی قسم تخمینہ (ملین بیرل)
پاکستان بھر میں کنوانشنل کروڈ تیل 234 – 353
خیبرپختونخوا، بلوچستان شیل تیل 9.1 ارب بیرل (تکنیکی)
ساحلی علاقے (ماکران، سندھ) ممکنہ ذخائر غیر تصدیق شدہ، 235 ٹریلین کیوبک فٹ گیس

⚖ تنازعات اور سوالات

ٹرمپ کے اس بیان نے بھارت میں غصے کو بھی جنم دیا۔ ان کے تبصرے کہ "پاکستان شاید ایک دن بھارت کو تیل بیچے" نے کچھ حلقوں میں تنقید کو جنم دیا۔ بھارتی سیاستدان ششی تھرور نے اس پر تبصرہ کیا: "یہ ایک بھرمی بیانیہ ہے۔"

مزید یہ کہ، ماہرین اس بات پر متفق نہیں کہ پاکستان واقعی اتنے بڑے ذخائر رکھتا ہے یا نہیں۔ 2019 میں عمران خان حکومت کے دوران بھی ایک بڑا دعویٰ کیا گیا تھا جو بعد میں ناکام نکلا۔

🔚 نتیجہ

اگرچہ یہ معاہدہ پاکستان کے لیے امید کی ایک کرن ثابت ہو سکتا ہے، لیکن اس میں کئی چیلنجز بھی ہیں — جیسے ٹیکنالوجی، سرمایہ کاری، سیاسی استحکام، اور سب سے بڑھ کر زمین پر ذخائر کی واقعی موجودگی۔ اس وقت معاہدے کا مستقبل غیر یقینی ہے، مگر اس پر نظر رکھنا لازم ہے۔ اگر اسے سنجیدگی سے نبھایا گیا، تو یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کی تقدیر بدل سکتا ہے۔


یہ بلاگ "Pashto Times" یا "Khatirnama" کے قارئین کے لیے ایک تحقیقی کاوش ہے، جس میں ہم نے خبروں، رپورٹس اور بیانات کی بنیاد پر ایک متوازن جائزہ پیش کیا ہے۔

تحریر: خاطر پٹھان ریسرچز
تاریخ: 31 جولائی 2025

ذرائع:

تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا اور پاکستان کے درمیان تیل کی تلاش کے لیے ایک معاہدہ ہوا ہے، جس میں دونوں ممالک پاکستان کے تیل کے ذخائر کی ترقی پر کام کریں گے۔ یہ معاہدہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ٹروتھ سوشل" پر اعلان کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ وہ ایک تیل کمپنی کا انتخاب کر رہے ہیں جو اس شراکت داری کی قیادت کرے گی۔ 


 ثبوت اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اس معاہدے میں معاشی، جئوپولٹیکل، اور توانائی کی سکیورٹی کے مفادات شامل ہیں، لیکن کچھ مبصرین اس بات پر سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا پاکستان کے پاس واقعی "وسیع" تیل کے ذخائر ہیں۔ اس موضوع پر کچھ تنازعہ ہے، خاص طور پر بھارت کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں، جہاں ٹرمپ نے کہا کہ شاید ایک دن پاکستان بھارت کو تیل بیچے، جو کچھ حلقوں میں تنقید کا باعث بنا ہے۔ 

 تعارف 

 امریکا اور پاکستان کے درمیان تیل کی تلاش کا معاہدہ ایک اہم پیش رفت ہے، جو 2025 کے جولائی میں سامنے آیا۔ اس معاہدے کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ٹروتھ سوشل" پر اعلان کیا، جس نے دنیا بھر میں توجہ مبذول کروائی۔

 یہ معاہدہ نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے کا ایک موقع فراہم کرتا ہے، بلکہ اس میں جئوپولٹیکل اور توانائی کی سکیورٹی کے پہلو بھی شامل ہیں۔ معاہدے کی تفصیلات ٹرمپ نے کہا کہ "ہم نے پاکستان کے ساتھ ایک معاہدہ طے کیا ہے، جس کے تحت پاکستان اور امریکا مل کر ان کے وسیع تیل کے ذخائر کی ترقی پر کام کریں گے۔ ہم اس شراکت داری کی قیادت کرنے والی تیل کمپنی کا انتخاب کر رہے ہیں۔

" اس اعلان کے بعد، پاکستان کے وزیر خارجہ احسن در اور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اس معاہدے کی تصدیق کی، جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف نے ٹرمپ کو اس "تاریخی" معاہدے کو فائنل کرنے کے لیے شکریہ ادا کیا۔ پاکستان کی فنانس منسٹری نے کہا کہ یہ معاہدہ دو طرفہ تجارت کو بڑھانے، مارکیٹ تک رسائی کو وسعت دینے، سرمایہ کاری کو راغب کرنے، اور باہمی دلچسپی کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کا مقصد رکھتا ہے۔ 

تاہم، ٹیرف کی شرحوں کے بارے میں تفصیلات واضح نہیں کی گئیں۔ ٹرمپ کی دلچسپی کی وجوہات تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ کی اس معاہدے میں دلچسپی کی وجوہات کئی ہیں: معاشی فوائد: یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو بڑھانے میں مدد دے سکتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب پاکستان اپنے تیل کی درآمدات کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو اس کی کل درآمدات کا تقریباً 20 فیصد بنتی ہیں۔ 


 جئوپولٹیکل استراتیجی


 امریکا چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان جیسے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانا چاہتا ہے، جو چین کا اہم ساتھی ہے۔

 توانائی کی سکیورٹی: 

پاکستان کے تیل کے ذخائر کی ترقی سے امریکا کو اپنی توانائی کی ضرورت کو پورا کرنے میں مدد مل سکتی ہے، خاص طور پر اس وقت جب عالمی تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سفارتی لیوریج: یہ معاہدہ امریکا کو پاکستان پر دباؤ ڈالنے کا ایک ذریعہ بن سکتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب پاکستان کو چین کی مدد پر زیادہ انحصار ہے۔

 تنازعات اور چیلنجز اس معاہدے کے بارے میں کچھ تنازعہ بھی ہے، خاص طور پر بھارت کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں۔ ٹرمپ نے کہا کہ شاید ایک دن پاکستان بھارت کو تیل بیچے، جو کچھ حلقوں میں تنقید کا باعث بنا ہے، خاص طور پر اس وقت جب امریکا نے بھارت پر 25 فیصد چنگی لگائی تھی۔

 علاوہ ازیں، کچھ مبصرین اس بات پر سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا پاکستان کے پاس واقعی "وسیع" تیل کے ذخائر ہیں۔ پاکستان کے پاس ثابت قابل بازیافت کنوانشنل کروڈ تیل کے ذخائر 234 ملین سے 353 ملین بیرل تک ہیں، جو دنیا میں 50ویں نمبر پر ہے، اور شیل تیل کے ذخائر 9.1 ارب بیرل تک تخمینہ لگائے گئے ہیں، لیکن ان کی نکاسی ابھی تک شروع نہیں ہوئی ہے۔ 


 تفصیلی جائزہ نوٹ:

 امریکا اور پاکستان کے درمیان تیل کی تلاش کا معاہدہ - ڈونلڈ ٹرمپ کی دلچسپی تعارف اور پس منظر 2025 کے جولائی میں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ٹروتھ سوشل" پر ایک اہم اعلان کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ امریکا اور پاکستان کے درمیان ایک تجارتی معاہدہ طے پا گیا ہے، جس کے تحت دونوں ممالک پاکستان کے تیل کے ذخائر کی ترقی پر کام کریں گے۔

 یہ اعلان 31 جولائی 2025 کو 9:00 AM CEST پر کیا گیا، اور اس نے دنیا بھر میں توجہ مبذول کروائی، خاص طور پر اس وقت جب امریکا اور بھارت کے درمیان تجارتی تعلقات میں تناؤ بڑھ رہا تھا۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارتی تعلقات کا تاریخی رجحان رہا ہے، لیکن حالیہ برسوں میں ان تعلقات میں کچھ تبدیلیاں آئی ہیں۔

 مئی 2025 میں، ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک آتش توقف کا دلالی کروائی تھی، جس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی بات چیت جاری تھی۔ پاکستان نے اس تجارتی معاہدے کی تلاش کی تھی، جس کا مقصد اپنے ملک کی معیشت کو مزید مضبوط بنانا تھا، خاص طور پر اس وقت جب اس کی تیل کی درآمدات، جو کل درآمدات کا تقریباً 20 فیصد بنتی ہیں، ایک بڑا چیلنج تھیں۔ معاہدے کی تفصیلات ٹرمپ نے اپنے اعلان میں کہا: "ہم نے پاکستان کے ساتھ ایک معاہدہ طے کیا ہے، جس کے تحت پاکستان اور امریکا مل کر ان کے وسیع تیل کے ذخائر کی ترقی پر کام کریں گے۔ 


ہم اس شراکت داری کی قیادت کرنے والی تیل کمپنی کا انتخاب کر رہے ہیں۔ شاید ایک دن وہ بھارت کو تیل بیچ سکیں!" اس اعلان کی تصدیق پاکستان کی جانب سے بھی ہوئی، جہاں وزیر خارجہ احسن در نے کہا کہ "پاکستان نے امریکا کے ساتھ معاہدہ طے کیا، الحمدللہ"، اور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اسے دونوں ممالک کے لیے "جیت جیت" کی صورتحال قرار دیا۔

 پاکستان کی فنانس منسٹری نے ایک بیان میں کہا کہ یہ معاہدہ دو طرفہ تجارت کو بڑھانے، مارکیٹ تک رسائی کو وسعت دینے، سرمایہ کاری کو راغب کرنے، اور باہمی دلچسپی کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کا مقصد رکھتا ہے۔ تاہم، ٹیرف کی شرحوں کے بارے میں تفصیلات واضح نہیں کی گئیں، لیکن یہ کہا گیا کہ یہ معاہدہ پاکستان کی برآمدات پر لگنے والی چنگیوں کو کم کرے گا، جو مارچ 2025 میں 29 فیصد تھی اور 90 دن کے لیے معطل کی گئی تھی تاکہ تجارت کی بات چیت کی جا سکے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے ٹرمپ کو اس "تاریخی" معاہدے کو فائنل کرنے کے لیے شکریہ ادا کیا اور اسے "اہم معاہدہ" قرار دیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اسے اپنی معیشت کے لیے ایک اہم موقع سمجھتا ہے۔ 


 پاکستان کے تیل کے ذخائر


ایک جائزہ پاکستان کے تیل کے ذخائر کی بات کریں تو، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ ذخائر بہت بڑے نہیں ہیں، اور اس بارے میں کچھ تنازعہ بھی ہے۔ دنیا میں پاکستان کا تیل کے ذخائر کے لحاظ سے 50ویں نمبر پر ہے، جس میں 234 ملین سے 353 ملین بیرل تک کے ثابت قابل بازیافت کنوانشنل کروڈ تیل کے ذخائر ہیں، جبکہ ایک 2015 کی امریکی اینرجی انفارمیشن ادارے کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے پاس 9.1 ارب بیرل تک کے تکنیکی طور پر بازیافت قابل شیل تیل کے ذخائر ہیں، لیکن ابھی تک ان کی نکاسی شروع نہیں ہوئی ہے۔ پاکستان کے ساحلی علاقوں میں بھی تیل کے ذخائر کی تلاش کی کوششیں کی گئی ہیں، خاص طور پر ماکران اور سندھ کے علاقوں میں، لیکن اکثر کوششیں ناکام رہی ہیں۔

 تاہم، کچھ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے ساحلی ذخائر دنیا کے چوتھے بڑے تیل کے ذخائر ہو سکتے ہیں، جن میں 235 ٹریلین کیوبک فٹ گیس کے ذخائر شامل ہیں، لیکن یہ ابھی تک مکمل طور پر تصدیق شدہ نہیں ہے۔ نیچے دی گئی جدول میں پاکستان کے تیل کے ذخائر کی تفصیلات دی گئی ہیں:

 علاقہ ذخائر کی قسم تخمینہ (ملین بیرل) کنوانشنل کروڈ تیل ثابت قابل بازیافت 234 - 353 شیل تیل تکنیکی طور پر بازیافت قابل 9100 ساحلی ذخائر ممکنہ تیل اور گیس غیر تصدیق شدہ، ممکنہ طور پر بہت بڑے ٹرمپ کی دلچسپی کی وجوہات تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ کی اس معاہدے میں دلچسپی کی وجوہات کئی ہیں، جن میں معاشی، 
جئوپولٹیکل، اور توانائی کی سکیورٹی کے مفادات شامل ہیں: 1
. معاشی فوائد:

 یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو بڑھانے میں مدد دے سکتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب پاکستان اپنے تیل کی درآمدات کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو اس کی کل درآمدات کا تقریباً 20 فیصد بنتی ہیں، یعنی 2025 کے جون 30 تک $11.3 بلین۔

 2. 

 جئوپولٹیکل استراتیجی


 امریکا کو چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان جیسے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانا چاہئے، جو چین کا اہم ساتھی ہے۔ اس معاہدے سے امریکا پاکستان پر اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکتا ہے اور چین کی موجودگی کو متوازن کر سکتا ہے۔

 3. توانائی کی سکیورٹی


پاکستان کے تیل کے ذخائر کی ترقی سے امریکا کو اپنی توانائی کی ضرورت کو پورا کرنے میں مدد مل سکتی ہے، خاص طور پر اس وقت جب عالمی تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ، اگر پاکستان اپنی تیل کی پیداوار بڑھاتا ہے، تو یہ خطے میں توانائی کی سکیورٹی کو بہتر بنانے میں مدد دے سکتا ہے۔

 4. سفارتی لیوریج


یہ معاہدہ امریکا کو پاکستان پر دباؤ ڈالنے کا ایک ذریعہ بن سکتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب پاکستان کو چین کی مدد پر زیادہ انحصار ہے۔ اس کے علاوہ، یہ معاہدہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو بھی متاثر کر سکتا ہے، جہاں ٹرمپ نے کہا کہ شاید ایک دن پاکستان بھارت کو تیل بیچے، جو ایک متنازعہ بیان ہے۔ تنازعات اور چیلنجز اس معاہدے کے بارے میں کچھ تنازعہ بھی ہے، خاص طور پر بھارت کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں۔ 

ٹرمپ نے کہا کہ شاید ایک دن پاکستان بھارت کو تیل بیچے، جو کچھ حلقوں میں تنقید کا باعث بنا ہے، خاص طور پر اس وقت جب امریکا نے بھارت پر 25 فیصد چنگی لگائی تھی۔

 بھارتی سیاستدان ششی تھارور نے اس بیان کو "بھرمی" قرار دیا اور کہا کہ پاکستان کے پاس اتنا بڑا تیل کا ذخیرہ نہیں ہے جتنا ٹرمپ دعویٰ کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں، کچھ مبصرین اس بات پر سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا پاکستان کے پاس واقعی "وسیع" تیل کے ذخائر ہیں۔

 کچھ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے ساحلی ذخائر دنیا کے چوتھے بڑے تیل کے ذخائر ہو سکتے ہیں، لیکن یہ ابھی تک مکمل طور پر تصدیق شدہ نہیں ہے، اور کچھ کوششیں، جیسے 2019 میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے اعلان کردہ "ایشیا کے سب سے بڑے تیل اور گیس کے ذخائر"، ناکام رہی ہیں۔ نتیجه امریکا اور پاکستان کے درمیان ہونے والا یہ تجارتی معاہدہ دونوں ممالک کے لیے اہم ہے، لیکن اس کی حقیقی تفصیلات ابھی تک واضح نہیں ہیں۔

 پاکستان کے تیل کے ذخائر کی ترقی سے دونوں ممالک کو فائدہ ہو سکتا ہے، لیکن اس کے لیے بہت ساری چیلنجز بھی ہیں، جن میں سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی، اور سیاسی استحکام شامل ہیں۔ اس معاہدے کے مستقبل پر نظر رکھنا ضروری ہے، خاص طور پر اس کے جئوپولٹیکل اثرات کے تناظر میں۔


Comments

Post a Comment

Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.