افغان مہاجرین کی پاکستان سے واپسی
31
اگست 2025 کے بعد کیا ہوگا؟
پاکستان نے گزشتہ چار دہائیوں سے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کی ہے، جو اپنے وطن میں جاری تنازعات، جنگوں اور عدم استحکام کی وجہ سے یہاں پناہ لینے آئے۔ لیکن اب، پاکستان کی حکومت نے ایک اہم فیصلہ کیا ہے کہ 31 اگست 2025 کے بعد سے، پروف آف رجسٹریشن
(PoR)
کارڈز رکھنے والے 13 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل شروع کیا جائے گا۔ یہ فیصلہ پاکستان کی وزارت داخلہ کی جانب سے 31 جولائی 2025 کو کیے گئے اعلان کا نتیجہ ہے، جس میں کہا گیا کہ
PoR
کارڈز کی میعاد 30 جون 2025 کو ختم ہو چکی ہے، اور اب ان کارڈز کے حاملین کو غیر قانونی تارکین وطن سمجھا جائے گا۔ اس مضمون میں ہم اس فیصلے کے پس منظر، عمل، اور اس کے ممکنہ اثرات پر تفصیلی روشنی ڈالیں گے۔
پس منظر: افغان مہاجرین اور پاکستان کی میزبانی
پاکستان نے 1979 میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد سے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی۔ اس کے بعد مختلف ادوار میں تنازعات، خاص طور پر 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد، مزید افغان شہریوں نے پاکستان میں پناہ مانگی۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (UNHCR)
کے مطابق، 30 جون 2025 تک پاکستان میں 13 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین رجسٹرڈ تھے، جن میں سے 7,17,945 خیبر پختونخوا، 3,26,584 بلوچستان، 1,95,188 پنجاب، 75,510 سندھ، اور 43,154 اسلام آباد میں مقیم تھے۔
ان مہاجرین کو قانونی طور پر رہنے کی اجازت دینے کے لیے، پاکستان نے 2004-05 میں
UNHCR
کے تعاون سے
PoR
کارڈز جاری کیے، جبکہ 2016 میں افغان سٹیزن کارڈز (ACC)
متعارف کرائے گئے۔ یہ کارڈز مہاجرین کو غیر قانونی واپسی (non-refoulement)
سے تحفظ فراہم کرتے تھے، یعنی انہیں زبردستی ان کے وطن واپس نہیں بھیجا جا سکتا جہاں ان کی جان یا آزادی کو خطرہ ہو۔ تاہم، اب حکومت نے اعلان کیا ہے کہ یہ کارڈز اب قانونی حیثیت نہیں رکھتے، اور مہاجرین کو واپس جانا ہوگا۔
واپسی کا فیصلہ: اہم نکات
پاکستان کی وزارت داخلہ نے 4 اگست 2025 کو ایک مراسلہ جاری کیا، جس میں تمام صوبوں کے چیف سیکریٹریز اور پولیس سربراہوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کے منصوبے (Illegal Foreigners Repatriation Plan - IFRP) پر عمل درآمد کریں۔ اس مراسلے کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
رضاکارانہ واپسی کا آغاز:
PoR
کارڈز رکھنے والے افغان مہاجرین کی رضاکارانہ واپسی فوری طور پر شروع ہوگی، جبکہ باضابطہ واپسی اور جبری اخراج کا عمل یکم ستمبر 2025 سے شروع ہوگا۔
ACC
ہولڈرز کی واپسی: افغان سٹیزن کارڈ
(ACC)
رکھنے والوں کی واپسی پہلے سے جاری
IFRP
کے تحت جاری رہے گی۔
انتظامی اقدامات:
نادرا واپس جانے والے افغان مہاجرین کی رجسٹریشن منسوخی میں سہولت فراہم کرے گی، جبکہ ایف آئی اے سرحدی گزرگاہوں پر واپسی کے عمل کی نگرانی کرے گی۔
صوبائی ذمہ داریاں: صوبائی حکومتیں
PoR
کارڈ ہولڈرز کا نقشہ بنائیں گی، ٹرانزٹ ایریاز اور ٹرانسپورٹیشن کے انتظامات بھی کریں گی۔
یہ فیصلہ پاکستان کی جانب سے
2023
میں شروع کیے گئے
IFRP
کا تسلسل ہے، جس کے تحت اب تک تقریباً 8 لاکھ افغان شہریوں کو واپس بھیجا جا چکا ہے۔
واپسی کی وجوہات
پاکستان کے اس فیصلے کے پیچھے کئی عوامل ہیں:
- سیکیورٹی خدشات: حکومت کا کہنا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن، خاص طور پر افغان شہری، ملک میں سیکیورٹی مسائل اور جرائم میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ حکام نے افغان مہاجرین کو تحریک طالبان پاکستان (TTP) جیسے دہشت گرد گروہوں سے جوڑا ہے، حالانکہ افغان طالبان حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔
- معاشی دباو
- لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی پاکستان کے معاشی وسائل پر بوجھ ڈال رہی ہے، جو پہلے ہی بحران سے دوچار ہیں۔
- بین الاقوامی پالیسی اور دباؤ: پاکستان نے اپنی پالیسی کا موازنہ امریکہ اور یورپی ممالک کی سخت امیگریشن پالیسیوں سے کیا ہے۔ مزید برآں، امریکی ری سیٹلمنٹ پروگرام کی معطلی نے بھی اس فیصلے کو تقویت دی ہے۔
عالمی ردعمل اور انسانی حقوق کے خدشات
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین
(UNHCR)
سمیت کئی عالمی تنظیموں نے پاکستان کے اس فیصلے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
UNHCR
نے کہا کہ
PoR
کارڈ ہولڈرز کی جبری واپسی پاکستان کی طویل عرصے سے جاری انسانی ہمدردی کی روایت اور بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔
اہم خدشات:
- خواتین اور بچیوں کے حقوق، خاص طور پر طالبان کے دور میں، شدید خطرے میں ہیں۔
- بڑے پیمانے پر واپسی افغانستان میں پہلے سے جاری انسانی بحران کو مزید سنگین بنا سکتی ہے۔
- طبی ضروریات والے افراد، طلباء، اور مخلوط شادیوں میں شامل افراد کے لیے خصوصی تحفظ کی ضرورت ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اس فیصلے کو انسانی حقوق کے عالمی قوانین کے منافی قرار دیا ہے۔
واپسی کا عمل
پاکستان نے واپسی کے لیے منظم اقدامات کیے ہیں:
- خیبر پختونخوا میں پشاور اور لنڈی کوتل میں ٹرانزٹ پوائنٹس قائم۔
- افغان عمائدین کے ساتھ جرگوں کے ذریعے رضاکارانہ واپسی کی ترغیب۔
- رضاکارانہ واپسی نہ کرنے والوں کے لیے گرفتاری اور جبری اخراج۔
افغان مہاجرین کی مشکلات
بہت سے افغان مہاجرین کے لیے پاکستان ہی ان کا واحد گھر ہے۔ کئی دہائیوں سے رہنے والے خاندانوں کے بچے یہاں پیدا ہوئے اور پروان چڑھے۔ بہت سے ایسے افراد بھی ہیں جو افغانستان کے حالات سے ناواقف ہیں اور واپسی کو خطرناک سمجھتے ہیں۔
مستقبل کیا ہوگا؟
UNHCR
نے خبردار کیا ہے کہ جبری واپسی سے افغانستان میں عدم استحکام اور بحران بڑھ سکتا ہے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ صرف درست ویزے رکھنے والے افغان شہری ہی رہ سکیں گے۔
نتیجہ
یہ فیصلہ ایک حساس اور پیچیدہ مسئلہ ہے جس میں سیکیورٹی اور معاشی دباؤ کے ساتھ انسانی حقوق اور بین الاقوامی ذمہ داریاں بھی شامل ہیں۔ ضروری ہے کہ یہ عمل محفوظ، رضاکارانہ اور باوقار انداز میں مکمل ہو، اور افغانستان میں واپس جانے والوں کی بحالی کے لیے عالمی برادری مدد فراہم کرے۔

Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.