آزادی کی جنگ کا ہیرو – غازی غورٹ اُتمانخیل
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
غورٹ اُتمانخیل پشتون قوم کی تاریخ کا ایک نامور ہیرو، بلوچستان کے ضلع لورالائی کی اُتمانخیل قبیلے کا سربراہ اور سپہ سالار تھا۔ وہ شہباز خیل ذیلی شاخ سے تعلق رکھتا تھا اور رودالین گاؤں کا رہائشی تھا۔ اس کی بہادری اور جدوجہد کی داستانیں آج بھی علاقے کے عوامی قصوں، گیتوں اور لوک کہانیوں میں زندہ ہیں۔ غورٹ کا خاندان آج بھی اُتمانخیل قبیلے کی قیادت میں اہم مقام رکھتا ہے۔
تاریخی پس منظر
انیسویں صدی میں، دوسری اینگلو-افغان جنگ (۱۸۷۸ء–۱۸۸۰ء) کے دوران، انگریز فوج افغانستان اور بلوچستان کے درمیان اہم گزرگاہوں کو اپنے قبضے میں لینا چاہتی تھی۔ جغرافیائی لحاظ سے لورالائی قافلوں، تجارتی قافلوں اور فوجی راستوں کے لیے نہایت اہم مقام تھا۔ لیکن اس علاقے کے قبائل، خاص طور پر اُتمانخیل، بیرونی اقتدار کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھے۔
انگریزوں سے پہلا رابطہ (۱۸۷۰ء کی دہائی)
۱۸۷۰ء کی دہائی کے آخر میں، جب انگریز فوج لورالائی سے عمقزئی کی طرف جا رہی تھی، غورٹ اُتمانخیل نے بظاہر ایک پُرامن لیکن دراصل جنگی منصوبہ تیار کیا۔ اس نے اپنے دو نمائندے ایک خط کے ساتھ انگریزوں کے پاس بھیجے، جس میں لکھا تھا: ہم اپنی زمین سے انگریزوں کے گزرنے کی مخالفت نہیں کرتے، اگر آپ چاہیں تو گزر سکتے ہیں۔"لیکن اس کے پیچھے اصل مقصد فوج کو قریب لا کر اچانک حملہ کرنا تھا۔ انگریز اس منصوبے کو بھانپ گئے اور اس راستے سے نہ گزرے۔
بغاؤ کی جنگ (مارچ ۱۸۷۹ء)
مارچ ۱۸۷۹ء میں، جب افغانستان کی جنگ ختم ہوئی، سِم ڈیمَن کی قیادت میں انگریز فوج سنجاوی راستے سے واپس جا رہی تھی۔ یہ خبر ملتے ہی غورٹ اُتمانخیل نے اپنے قبیلے کے لشکر کو اکٹھا کیا، اور ژوب کے سردار شاہ جہاں بھی اس کے ساتھ شامل ہوگئے۔ قریبی دیگر قبائل نے بھی اس جنگ میں حصہ لیا۔
لشکر بوبلی کے مقام پر مورچہ زن ہوا، جو آج کل "بغاؤ" کہلاتا ہے۔ یہ پہاڑوں کے درمیان ایک تنگ درہ تھا، جسے آج "مندے ٹک" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ جگہ گھات لگانے کے لیے نہایت موزوں تھی۔ جنگ شروع ہونے سے پہلے، ملک خادون نامی ایک شخص نے غورٹ کا منصوبہ انگریزوں کو بتا دیا۔ انگریز فوج نے بھرپور تیاری کر لی اور شدید لڑائی کے بعد کامیاب ہوئی۔ اس معرکے میں تقریباً ۴۰۰ پشتون شہید ہوئے، جن میں سے ۳۰۰ کے قریب اُتمانخیل قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان شہداء کی قبرستان آج بھی بغاؤ میں موجود ہے، جسے "شہیدان کا قبرستان" کہا جاتا ہے۔غورٹ اُتمانخیل اور شاہ جہاں زندہ بچ گئے، لیکن یہ جنگ پشتون مزاحمت کی تاریخ میں ایک قابلِ فخر باب بن گئی۔ غورٹ کی بہادری اور مزاحمت نے انگریز حکومت کو یہ پیغام دیا کہ لورالائی کے عوام کو مکمل طور پر قابو میں لانا آسان نہیں۔ بعد میں انگریزوں نے لورالائی کے لوگوں کو ٹیکس سے استثنیٰ اور کچھ معاشی مراعات دیں۔ آج تک لورالائی کے لوگ ان مراعات سے فائدہ اُٹھاتے ہیں، جو غورٹ کے جہاد کا ایک دیرپا اثر ہے۔
عوامی یادداشت میں مقام
غورٹ اُتمانخیل عوامی قصوں اور لوک گیتوں کا ایک لازوال کردار ہے۔ لوک کہانیوں میں اُسے "کارگر اُتمانخیل" کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ اس کے بغیر کوئی لشکر کامیاب نہ ہوتا۔
---
(تحریر وتحقیق رحمان الله رحمانی اتمان خیل )
---

Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.