Skip to main content

افغان جنگ، جنرل ضیاء الحق اور افغان مہاجرین: ایک تاریخی جائزہ

 افغان جنگ، جنرل ضیاء الحق اور افغان مہاجرین: ایک تاریخی جائزہ


افغانستان کی تاریخ خون، جنگ اور سازشوں سے بھری پڑی ہے۔ 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں جب سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کیا، تو اس وقت افغان عوام کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ ان کے ملک اور ان کی زندگیوں کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ اس دور میں پاکستانی صدر جنرل ضیاء الحق کو کئی افغانی، خاص طور پر جاہل اور غیر تعلیم یافتہ حلقوں میں، ایک مقدس شخصیت سمجھا جاتا تھا۔ وہ ان کے لیے ایک نجات دہندہ اور مذہبی رہنما کی حیثیت رکھتے تھے۔ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ یہ عقیدت محض جہالت کی پیداوار تھی۔


افغان جنگ اور جنرل ضیاء الحق کی پالیسیاں


جنرل ضیاء الحق کے دور میں پاکستان نے افغان جنگ میں کلیدی کردار ادا کیا۔ سوویت فورسز کے خلاف جہاد کے نام پر افغان مجاہدین کی مدد کی گئی، جس میں پاکستان، امریکہ اور دیگر ممالک کے مفادات شامل تھے۔ اس وقت لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان مہاجرین کو ایک سیاسی آلہ کے طور پر استعمال کیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق کی پالیسیوں کا ایک خفیہ پہلو یہ تھا کہ افغان مہاجرین کو کبھی بھی مستقل شناخت یا شہریت نہ دی جائے۔ یہ پالیسی اس قدر خفیہ تھی کہ خود مہاجرین کو اس کا علم نہ تھا۔


افغان مہاجرین کا استحصال


افغان مہاجرین، جو زیادہ تر غیر تعلیم یافتہ اور مذہبی جذبات سے مغلوب تھے، یہ سمجھتے تھے کہ انہیں پاکستان میں عزت اور تحفظ ملے گا۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی۔ انہیں جنگ کے لیے استعمال کیا گیا اور جب ضرورت پوری ہوئی تو 45 سال بعد انہیں پاکستان سے بے دخل کرنے کی پالیسیاں اپنائی گئیں۔ جنرل ضیاء الحق کی موت کے بعد بھی کئی افغان مہاجرین ان کے لیے دعائیں مانگتے رہے، غائبانہ جنازے پڑھے گئے اور انہیں ایک عظیم رہنما سمجھا جاتا رہا۔ لیکن وقت نے یہ واضح کر دیا کہ یہ سب محض ایک فریب تھا۔


جنرل ضیاء الحق کی آخری پرواز


جنرل ضیاء الحق کی موت 17 اگست 1988 کو ایک C-130 طیارے کے حادثے میں ہوئی، جو ایک پراسرار واقعہ ہے اور اس کے بارے میں کئی سازشی نظریات موجود ہیں۔ ان کی موت نے پاکستان اور افغانستان دونوں کے سیاسی منظرنامے کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ افغان مہاجرین کے لیے یہ ایک صدمے کی بات تھی، کیونکہ وہ انہیں اپنا محسن سمجھتے تھے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی پالیسیوں نے افغان مہاجرین کو ایک غیر یقینی مستقبل کی طرف دھکیل دیا۔


آج کے حقائق


آج، افغان جنگ کے نتائج اور اس کے پیچھے چھپی ہوئی منافقت اور مکاری سب کے سامنے عیاں ہے۔ افغان مہاجرین کو نہ صرف پاکستان سے بے دخلی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ انہیں اپنے وطن میں بھی غیر یقینی حالات کا سامنا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کی پالیسیوں نے ایک ایسی میراث چھوڑی جو آج بھی پاکستان اور افغانستان کے تعلقات پر اثر انداز ہو رہی ہے۔


نتیجہ


افغان جنگ اور جنرل ضیاء الحق کے کردار نے خطے کی تاریخ کو پیچیدہ بنا دیا۔ افغان مہاجرین کی کہانی ایک سبق ہے کہ جہالت اور جذباتیت کس طرح انسانوں کو استعمال کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ تاریخ سے سبق سیکھا جائے اور ایسی پالیسیوں سے گریز کیا جائے جو انسانوں کے استحصال پر مبنی ہوں۔


تصویر اس وقت کی ہے جب جنرل ضیاء الحق C-130 جہاز میں سوار ہو رہے تھے آخری بار



Comments