Skip to main content

Flood in Buner, Shangla, Swat and Dir. By Ali Arqam

 بونیر، شانگلہ، سوات، ماحولیاتی المیوں کا تسلسل 


وزیرستان کی سب سے توانا اور مؤثر آوازوں میں سے ایک حیات ہریغال نے اپنی پوسٹ میں ایک اہم پہلو کی نشاندہی کی ہے، وہ کہتے ہیں


سوات باجوڑ اور بونیر شانگلہ میں تباہی اس لئے نہیں ہوئی کہ عوام ندی نالوں کے اندر آباد ہیں۔ بلکہ عوام گزشتہ سو دو سو سالوں سے انہی علاقوں میں آباد ہیں۔ پیر بابا کا بازار ، بیشنوئی گاوں گزشتہ سو ڈیڑھ سو سالوں سے یہیں آباد تھا لیکن موسمیاتی تبدیلیاں اتنی ہوچکی ہیں کہ اب اوپر آبادیاں محفوظ نہیں، ندی نالوں نے گذشتہ سو دو سو سالوں میں انتی طغیانی نہیں دکھائی جتنی کچھ گزشتہ چند سالوں سے دکھا رہے ہی


یعنی یہ محض ریور بیڈ (یعنی پانی کے بہاؤ میں تعمیرات کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے بدلتے پیٹرنز کا مسئلہ ہے


ماہرین کے مطابق مالاکنڈ ڈویژن یعنی بونیر، سوات، شانگلہ، دیر اور ساتھ متصل قبائلی اضلاع خصوصاً باجوڑ ہمالیہ اور ہندوکش کے اس حصے میں واقع ہیں جہاں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سب سے زیادہ شدت سے ظاہر ہو رہے ہیں۔


بارش کے پیٹرنز میں بنیادی تبدیلی آچکی ہے۔ مون سون کی بارشیں اب پہلے سے زیادہ مختصر وقت میں اور زیادہ شدت سے برس رہی ہیں، جس کے نتیجے میں دریا اور برساتی نالے اچانک

طغیانی کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔


اس ساری صورتحال کی سائنسی توجیہ ماہرین کے مشاہدات میں بھی ملتی ہے، پروفیسر پریکش راوت جنوبی ایشیا کے ممتاز ماہرِ ماحولیات ہیں۔ وہ انٹرنیشنل سنٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈیویلپمنٹ کٹھمنڈو سے وابستہ ہیں اور ان کی تحقیق بنیادی طور پر موسمیاتی تبدیلی، گلیشیئرز کے سکڑاؤ اور مقامی برادریوں پر اثرات سے متعلق ہے


راوت کے مطابق ہندوکش ہمالیہ خطے میں بارش کے پیٹرنز مکمل طور پر بدل چکے ہیں۔ اب زیادہ بارش مختصر وقت میں اور زیادہ شدت کے ساتھ ہوتی ہے، جس کے باعث فلیش فلڈز اور لینڈ سلائیڈنگ کے خطرات کئی گنا بڑھ گئے ہیں، اسی کے ساتھ برف پگھلنے کے عمل کی رفتار بھی بڑھ گئی ہے۔ ہندوکش اور قراقرم کے گلیشیئر تیزی سے سکڑ رہے ہیں۔


 سوات اور دیر کے پہاڑوں پر برف پہلے پگھلتی ہے اور پھر اچانک بارش آ ملے تو پانی کا بہاؤ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ جنگلات کی بے دریغ کٹائی نے اس عمل کو مزید شدید کر دیا ہے۔ درخت پانی کے بہاؤ کو سست کرتے اور زمین کو کھسکنے سے روکتے ہیں لیکن پچھلی تین دہائیوں میں مالاکنڈ ڈویژن اور باجوڑ میں جنگلاتی رقبہ تیزی سے کم ہوا، نتیجہ یہ نکلا کہ بارش براہ راست زمین کو کاٹتی اور بستیاں بہا لے جاتی ہیں۔


ماحولیاتی تبدیلی صرف زیادہ بارش نہیں لاتی بلکہ گرمیوں میں زیادہ درجہ حرارت اور سردیوں میں غیر متوقع بارش و برفباری بھی اس کا حصہ ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ مقامی انفراسٹرکچر اور صدیوں پرانے رہائشی و زرعی پیٹرنز اب نئے خطرات کے سامنے کمزور ہو گئے ہیں۔


 مالاکنڈ ڈویژن میں جنگلات کی کٹائی اور ناقص مقامی منصوبہ بندی نے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ اگر جنگلات محفوظ رہتے تو پانی کی رفتار اور زمین کے کٹاؤ کو کسی حد تک روکا جا سکتا تھا


اسی طرح باجوڑ میں لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات بڑھے ہیں، یہ خطہ بد امنی کی حالیہ لہر کے ساتھ ساتھ اب غیر معمولی بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ سے دوہری تباہی کا سامنا کر رہا ہے اور کاشت کاروں کا مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہ


مجھے یاد ہے ہمارے بچپن کے دنوں کے دریائے سوات کے کنارے واقع دو گاؤں، گل جبہ اور ہزارہ، کے درمیان بہنے والے برساتی نالے یعنی خوڑ میں نہانے کے تجربات آج بھی ذہن میں تازہ ہیں۔ 

تب پانی کی روانی اتنی تیز تھی کہ اس میں پیر نہیں ٹکتے تھے، یہ خوڑ آگے جاکر دریائے سوات میں گرتا تھا


وقت گزرنے کے ساتھ، جہاں آبادی بڑھی، پہاڑیاں کٹ کر کھیت اور گھر بنے، پانی کی مقدار کم ہوتی گئی اور وہی خوڑ سکڑ کر چھوٹے جوہڑوں اور تالابوں میں بدل گیا۔


دوہزار بائیس میں جب طغیانی آئی تو یہ خوڑ پھر سے بھر گیا دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نے ہزارہ اور گل جبہ کے کھیتوں کو بچانے میں قدرتی رکاوٹ کا کردار ادا کیا۔ جہاں دریائے سوات کی موجوں نے کھیت بہا دیے، وہاں خوڑ کے تیز بہاؤ کے ساتھ درا میں گرنے نے پانی کو دھکیل کر اس کے دونوں طرف کی زمینوں کو بچا لیا، جہاں کچھ فاصلے پر دریا کناروں کی زمین بہا لے گیا تھا یہاں خوڑ کے ہاتھ بچی اس کے دونوں طرف کی زمین ایک ڈی کی صورت میں محفوظ تھی


حالیہ حادثات اور المیے بتاتے ہیں کہ اب مسئلہ صرف دریا کے راستے پر تعمیرات کا نہیں رہا، بلکہ موسمیاتی تبدیلی نے پورا جغرافیہ بدل دیا ہے۔ وہ جگہیں جو کبھی نسبتاً محفوظ سمجھی جاتی تھیں اب خطرے کے زون میں آ چکی ہیں

Comments