پاکستان اور ہندوستان دونوں نے اس جنگ کے ماحول میں بہت اچھے سے
post-colonial
ممالک ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔ سرکاری بیانیے میں تو نہیں لیکن دونوں ممالک کے یوٹیوبر اور میڈیا وہی
colonial masters
کی پھیلائی ہوئی
myths
کو دوہرا رہے ہیں اور مقاصد بھی وہی ہیں۔
پاکستان میں دیکھیں تو ویڈیو میری نظر سے گزری کہ ایک رپورٹر ایمل ولی خان سے پوچھتا ہے کہ کیا پشتون بھائی فوجیوں کے ساتھ ملکر لڑیں گے اور یہ کہ ہندوستانی پشتونوں سے بہت خوف کھاتے ہیں۔ اسی طرح انڈین یوٹیوبرز کو دیکھیں تو وہ سکھوں کی بہادری کے جھوٹے سچے قصے سنا رہے ہیں۔
مقصد دونوں کے ایک جیسے ہیں کہ پاکستان پشتونوں کو انڈیا اور انڈیا سکھوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے، ان کی خوشامد کرکے۔ یہ وہی خوشامد والا رویہ ہے جو برطانیہ نے پہلے پنجابی سپاہیوں پر آزمایا اور انھیں martial race
قرار دیا اور انھیں پشتون قبائل کے خلاف خوب استعمال کیا اور پھر افغانستان پر حملوں کے لیے بھی لیکن جب وہی افغانستان برطانیہ نے سیاسی طور پر جیت لیا تو پھر پشتون بھی
martial race
ہوگئے تاکہ انھیں زارِ روس کی فوج کے خلاف استعمال کیا جائے، پشتونوں کے متعلق اس
myth
کو مزید تب اچھالا گیا جب انھیں امریکہ نے روس کے خلاف استعمال کرنا تھا۔
ان
martial race
کے نظریات کی مضحکہ خیزی دیکھیے کہ ان کی موجودہ شکل سے مثال لی جائے تو یہ نظر آتا ہے کہ ایک پنجابی جب تک سکھ ہے تب تک تو وہ لڑاکو ہے اور دلیر ہے (کیونکہ سکھ زیادہ انڈیا میں ہیں اور وہاں کا dominant ethnic group
انھیں استعمال کرنا چاہتا ہے) جبکہ جیسے ہی وہ پنجابی کلمہ پڑھتا ہے تو وہ سادہ، اپنے کام سے کام رکھنے والا کسان بن جاتا ہے جو کہ لڑائی جانتا ہی نہ ہو کیوں؟ کیونکہ مسلمان پنجابی پاکستان میں پائے جاتے ہیں جہاں وہ
dominant ethnic group
ہیں تو ظاہر ہے وہاں کی حکومت ان کو تو
expendable
نہیں سمجھتی لہذا وہ سادہ لوح کسان ہوجاتے ہیں اور لڑاکو صرف پشتون ہیں۔
ایک بڑی وجہ ان کے اب تک موجود ہونے کی یہ ہے کہ یہ myths
جن قوموں کے متعلق ہے وہ ناسمجھی میں ان باتوں پر فخر کرتے ہیں جبکہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ کوئی قوم بھی
essentially
لڑاکو یا کمزور نہیں ہوتی بلکہ ہر قوم کے مختلف افراد لڑنے کی قابلیت رکھتے ہیں، اس کا انحصار اس شخص کی ٹریننگ اور جینیاتی قابلیت پر ہوتا ہے نہ کہ صرف اس کی نسل پر۔
سجیل کاظمی

Comments
Post a Comment
Thanks for visiting Pashto Times. Hope you visit us again and share our articles on social media with your friends.