Skip to main content

‏بلوچستان یونیورسٹی ہراسمنٹ کیس سے متعلق روزنامہ "ڈان" کی رپورٹ سے اقتباسات

 ‏بلوچستان یونیورسٹی ہراسمنٹ کیس سے متعلق روزنامہ "ڈان" کی رپورٹ سے اقتباسات


جویریہ کے مطابق، "ایک دن امتحان کے دوران ایک پروفیسر میرے پاس آیا اور بولا، 'میرے سوالات کیسے لگے؟' پھر اُس نے میری ران پر ہاتھ رکھا اور دھمکی دی کہ میرے نمبر اُس کے ہاتھ میں ہیں۔ پھر اُس نے میری شکل و صورت کی تعریف کرتے ہوئے کہا، 'ایسی خوبصورتی میں بھلا کیسے بھول سکتا ہوں؟'"


کئی طالبات کے مطابق، دفتری عملہ بھی اس جرم میں برابر کا شریک ہے، اور الٹا لڑکیوں کو بدکردار قرار دیتا ہے۔ جویریہ کہتی ہے کہ ایک کلرک نے اسے کہا کہ اگر وہ کچھ "احسان" کرے تو وہ سوالنامے لیک کر سکتا ہے۔ ایک دن اُس نے دفتر میں جویریہ کا ہاتھ پکڑ کر دبایا اور اسے زبردستی ایک سم کارڈ دینے کی کوشش کی۔ "پھر اُس نے کمرہ بند کرنے کی کوشش کی،" جویریہ نے بتایا۔ "خوش قسمتی سے میں بچ نکلی۔" ایک اور کلرک نے اسے اُس کے منگیتر کے ساتھ دیکھ کر "بدچلن لڑکی" کہہ دیا۔


جویریہ کی شکل و صورت کچھ شیعہ ہزارہ لڑکیوں جیسی ہے، حالانکہ وہ اس برادری سے نہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ یو او بی میں ہزارہ لڑکیاں خاص طور پر ہراسانی کا شکار ہوتی ہیں کیونکہ وہ ایک مظلوم اقلیت سے تعلق رکھتی ہیں۔ مزید یہ کہ ہزارہ مردوں کی قلیل موجودگی کے باعث ان لڑکیوں کو کسی قسم کا سماجی تحفظ حاصل نہیں۔


طالبہ یاسمین بلوچ کو یاد ہے کہ وہ اور چند دیگر لڑکیاں ایک پروفیسر کے دفتر میں بیٹھ کر تعلیم پر گفتگو کر رہی تھیں۔ اُن کے لیے باعثِ شرم یہ تھا کہ پروفیسر بار بار کہہ رہا تھا کہ "اتنی خوبصورت لڑکیوں کے درمیان بیٹھنا میری زندگی کا سب سے خوشگوار لمحہ ہے۔" اُس نے ایک ہزارہ لڑکی سے کہا: "تم انار کی طرح سرخ لگ رہی ہو، میں تمہارے لیے انار کا جوس منگواتا ہوں۔" یاسمین کے مطابق، پروفیسر نے ایک ہزارہ لڑکی کی گود میں بیٹھنے کی بھی جسارت کی اور اسے بوسہ دیا — سب کے سامنے۔


ایک اور ہزارہ طالبہ نے بتایا کہ ایک سینئر پروفیسر روزانہ اُسے اپنی تصویریں واٹس ایپ پر بھیجتا تھا۔ "پھر اُس نے قابلِ اعتراض ویڈیوز اور تصاویر بھیجنا شروع کر دیں۔" آخرکار، اُس نے ہمیشہ کے لیے اپنا نمبر بند کروا دیا۔


پروفیسر خان* کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی میز میں ایک پرفیوم کی بوتل رکھتے ہیں، جو وہ ان طالبات کو پیش کرتے ہیں جو اُن سے تعلیم کے سلسلے میں ملنے آتی ہیں۔ بی اے کی دو طالبات، معصومہ اور رابعہ، کے مطابق، وہ ہمیشہ لڑکیوں سے قریب بیٹھنے کا اصرار کرتے ہیں۔ "انہیں پرفیوم لگانے والی لڑکیاں خاص طور پر پسند ہیں،" ایک نے بتایا۔ "پھر وہ ہمیں سر سے پاؤں تک گھورتے ہیں۔"


معصومہ، جو خود ایک پروفیسر کی بھتیجی ہے، نرم مگر واضح آواز میں ڈان کو بتاتی ہے کہ پروفیسر خان اُس کے پیچھے چلتے اور ہاسٹل تک اس کا پیچھا کرتے تھے، اور اس کا فون نمبر مانگتے تھے۔ "ایک دن میں نے اسے بتایا کہ میرے ماموں بھی اسی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔" اُس کی خوش قسمتی کہ اس کے بعد ہراسانی رک گئی۔


پروفیسر خان نے پھر اُس کی دوست رابعہ کا پیچھا شروع کر دیا، جو پردہ کرتی ہے۔ "ایک دن اُس نے مجھ سے کہا، 'تم اپنا چہرہ کیوں نہیں دکھاتیں؟ میں جانتا ہوں تم شریف لڑکی ہو اور مجھ سے دوستی نہیں کر سکتیں، تو کسی دوسری لڑکی کا نمبر ہی دے دو۔'"


"بھلا کوئی اپنے استاد سے دوستی کر سکتا ہے؟" معصومہ سوال کرتی ہے۔ "اور بات صرف دوستی پر ختم نہیں ہوتی — وہ اس سے بھی زیادہ چاہتے ہیں۔"


کچھ طالبات نے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ڈویژن میں شکایتیں درج کرائی ہیں۔ ایک خط، جو ڈپٹی ڈائریکٹر کے نام لکھا گیا ہے، میں ایک طالبہ نے دو یونیورسٹی اہلکاروں پر الزام لگایا ہے کہ وہ اُس کی رضامندی کے بغیر لی گئی "نامناسب تصاویر" کے ذریعے اسے بلیک میل کر رہے ہیں۔ اس نے لکھا کہ ذہنی اذیت نے اسے خودکشی کے خیالات تک پہنچا دیا ہے۔




Comments